چینی سکینڈل:اربوں کی سٹے بازی،غیرقانونی کرشنگ
بابر سنٹر لاہور، جودھیا بازار کراچی، غلہ منڈی ملتان، گول بازار فیصل آباد میں مراکزقائم 80فیصدبے نامی فروخت کرنیوالے ڈرائیورز ، مالکان نے 8ماہ چینی کا 1 دانہ تک نہ بیچا
لاہور (فہد شہباز خان)شوگر ملزمالکان کی غیر قانونی طور پر منظور شدہ استعدادسے زیادہ کرشنگ کرنے کے حقائق کا پتا لگایا ہے ، فروخت میں اربوں روپے کی سٹے بازی کا بھی انکشاف ، چینی سکینڈل میں90فیصد جعلی رسیدیں بنائے جانے کے شواہدملے ہیں۔ گنے کے بڑے پیمانے پر غیر رجسٹرڈ ڈیلرز کا انکشاف ہوا ہے ۔ چینی کمیشن نے شوگر ملز کی طرف سے وسیع پیمانے پر سٹاک کی ذخیرہ اندوزی کا بھی سراغ لگا لیا ہے ۔ چینی کمیشن کے چینی ایکسپورٹ نہ کرنے کے بارے میں شواہد نہیں مل سکے ۔ بعض شوگر ملز مالکان کی طرف سے چینی کی پیداوار سے 8ماہ تک لوکل مارکیٹ میں چینی کا ایک بھی دانہ فروخت نہ کرنے کا انکشاف کیونکہ وہ پر امید تھے کہ حکومت کی طرف سے ایکسپورٹ کی اجازت مل جائے گی اور وہ سبسڈی بھی لیں گے ۔2017-18کے دوران ایکسپورٹ کرنیوالی ملوں نے سپورٹ پرائس سے کم قیمت پر گنا خریدا،چینی کی بے نامی فروخت 80فیصد تک ڈرائیوروں کے نام پر ہوئی۔ چینی کمیشن کی تحقیقات کے دوران چینی کی فروخت میں اربوں روپے کی سٹے بازی کا انکشاف ہوا ہے ۔کمیشن کے ذرائع نے دنیا نیو ز کو بتایا کہ ملک کے بڑے شہروں میں سٹے بازی کے مراکز قائم ہیں جن میں بابر سنٹر لاہور، جودھیا بازار کراچی، غلہ منڈی ملتان، گول کریانہ بازار فیصل آباد شامل ہیں۔کمیشن ذرائع کے مطابق سٹے بازی دو طرح سے کی جاتی ہے جن میں حاضر سٹاک کا سودا اور فارورڈ کنٹریکٹ شامل ہیں۔ حاضر سٹاک سٹے میں چینی کی ہزاروں بوریاں خرید لی جاتی ہیں مگر وہ ملز کے گودام میں پڑی رہتی ہیں۔مثال دیتے ہوئے ذرائع نے بتایا کہ اگر ایک بوری7600روپے کی ہے اور اس پر ایک ماہ بعد مارکیٹ میں 7800قیمت کے ہونے کا دعویٰ کردیا جاتا ہے جس نے 7800روپے کے حساب سے بوری خریدنی ہو اسے پوری رقم ادا نہیں کرنی پڑتی بلکہ 200روپے فی بوری بیانے کی رقم کے طور پر ادا کرنے ہوتے ہیں لیکن اگر قیمت7800تک نہ جاسکے تو مذکورہ پارٹی کی تمام رقم جو فی بوری بیانے کے طور پر ادا کی جاتی ہے وہ ضبط کر لی جاتی ہے اور اگر یہی سٹہ لاکھوں بوریوں پر ہو تو رقم اربوں روپے تک جاپہنچتی ہے ۔اور یاد رہے کہ جومال ملز نے پارٹیوں کو بیچا تھا وہ پلج بھی ہوا ہوتا ہے ۔ دوسری جانب فارورڈ کنٹریکٹ میں ملز ایڈوانس میں ہی مال بیچ دیتی ہیں اور مارکیٹ میں ایک ماہ بعد فرضی قیمت اڑا دیتی ہے جبکہ ہارنے والے کی بیانے کی رقوم ملز ضبط کرلیتی ہے ۔ چینی سٹے میں انڈسٹری، بروکر اور بے نامی انویسٹر اہم کھلاڑی ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ چینی کی قیمت بڑھانے میں سٹے کے غیر قانونی رواج کا اہم کردار ہے ۔ ذرائع کے مطابق ملکی سطح پر چینی کی فروخت کیلئے دو طرح کی بلٹی بنائی جاتی ہے ۔ بوگس بلٹی میں غلط ریکارڈ درج کرکے ایف بی آر کو بھجوادیا جاتا ہے اور خفیہ بلٹی کے ذریعے چینی کا کاروبار ہوتا ہے جس سے اصل خرید و فروخت کو چھپایا جاتا ہے ۔بے نامی ٹرک ڈرائیوروں میں 60لاکھ کی چینی کا خریدار ایک ڈرائیور ہے جس نے تحقیقات کے دوران کمیشن کو بتایا کہ وہ ایک کلو سے زائد چینی کا خریدار نہیں ، چینی کمیشن نے تحقیقات کے دوران غیر قانونی طور پر پہلے سے منظور شدہ ملز کی استعدادسے زیادہ کرشنگ کا سراغ لگایا ہے ۔ تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ ملز نے منظور شدہ ٹن کرشنگ پر ڈے (TCD) کے معاہدے کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔2017-18میں ایکسپورٹ کیلئے وسیع پیمانے پر بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں جن میں گنا سپورٹ پرائس سے کم خریدنا ،کین کمشنرز کی طرف سے مناسب جانچ پڑتال کے بغیر ایکسپورٹ کیلئے این او سی دینا اور ملز کا واجبات کی مکمل ادائیگی کے بغیر ایکسپورٹ کرنا شامل ہیں۔ اپنی تحقیقات میں لوکل مارکیٹ میں 80فیصد سے زائد چینی کی بے نامی فروخت انکشاف ہوا ہے ۔اسی طرح کمیشن نے تحقیقات میں گنے کی ناقص کوالٹی کے نام پر شوگر ملوں کے وزن کرتے ہوئے 20 سے 40فیصد تک کٹوتی کرنے کا سراغ بھی لگایاہے ۔