قومی بجٹ جیسے سنجیدہ عمل پر ایوان میں غیرسنجیدگی کیوں؟

قومی بجٹ جیسے سنجیدہ عمل پر ایوان میں غیرسنجیدگی کیوں؟

بجٹ تیاری میں اراکین اسمبلی کا کردار ختم تو عام آدمی کی دلچسپی بھی نہیں رہی بجٹ ٹیکس فری ہونا خوش کن،شرح پیداوار 2.1 قراردینا حقیقت پسندانہ نہیں

دنیا کی سیاسی تاریخ میں کسی بھی ملک کے سالانہ بجٹ کو ایک سال میں ہونے والے آمدن و اخراجات میں ڈسپلن کے حوالہ سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے اور بہت حد تک اس پر عملدرآمد بھی ہوتا ہے لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بجٹ جیسے سنجیدہ عمل کیلئے سرکاری سطح پر تیاری تو کی جاتی ہے مگر کیا ہر سال میں اخراجات بھی طے شدہ شیڈول کے مطابق ہوتے ہیں۔ یہ اہم سوال ہے اور یہی وجہ ہے کہ آنے والے بجٹ پر تو سب کی نظر ہوتی ہے مگر گزشتہ سال میں اخراجات میں ہونے والے ردوبدل اور اضافی اخراجات کو نظرثانی شدہ بجٹ کے ذریعہ منظور کرا لیا جاتا ہے جس پر کوئی زیادہ آواز بھی نہیں اٹھتی ۔ پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں کی بجٹ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ سارا سال مالیاتی امور میں ہونے والی تبدیلیوں اور خصوصاً اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کے مسلسل عمل کے باعث عام آدمی کی دلچسپی اس میں کم ہو کر رہ گئی ہے ۔ بجٹ جیسے سنجیدہ عمل پر بھی منتخب ایوان میں سنجیدگی کا فقدان نظر آتا ہے اور یہ روایت بنتی چلی جا رہی ہے کہ اپوزیشن اس عمل کا حصہ بننے کے بجائے اس موقع پر احتجاج کرکے اسکی سنجیدگی کو زائل کر دیتی ہے ۔ 95فیصد سے زائد اراکین اسمبلی بجٹ پڑھنا بھی گوارا نہیں کرتے ۔ دوسرا بجٹ کی تیاری میں منتخب اراکین اسمبلی کی سفارشات کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ موجودہ بجٹ مشکل ترین صورتحال میں بنایا گیا ، بجٹ کی پہچان صنعتوں کا فروغ’ زراعت کو موثر بنانا’ گھریلو بزنس کا اضافہ سمیت دیگر شعبہ جات ہوتے ہیں مگر اس بجٹ میں ایسی کوئی بات نہیں ۔ مذکورہ بجٹ شاید پہلا بجٹ ہوگا جس میں سرکاری ملازمین اور پنشنرز کیلئے بھی کوئی خوشخبری نہیں ۔ علاوہ ازیں یہ تاثر بھی عام ہے کہ بجٹ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے بنائے ہوئے رہنما اصولوں کی روشنی میں تیار ہوا ہے اور ان سے عام آدمی کی حالت زار میں تبدیلی اور ان کیلئے ریلیف کا کم ہی امکان ہوتا ہے ۔ شاید پہلی دفعہ ملک میں ترقی معکوس دیکھنے میں آئی ۔ حکومت نے آئندہ سال کیلئے 2.1کا ٹارگٹ رکھا ہے ۔ لیکن جب خود حکومت کا کہنا ہے کہ آنے والے حالات کورونا اور اسکے اثرات کے حوالہ سے اچھے نہیں تو پھر شرح پیداوار 2.1 کو حقیقت پسندانہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو اگلے تین چار ماہ میں ہی اعدادوشمار میں تبدیلی کرنا پڑے گی ۔ بجٹ میں زراعت اور ٹڈی دل کے خاتمہ کیلئے صرف دس، دس ارب رکھے گئے ہیں، یہ رقم انتہائی کم ہے ۔ وفاقی وزیر حماد اظہر نے اپوزیشن کے ہنگامہ کے باوجود جس اعتماد سے اپنی بجٹ تقریر کی اگر اتنے اعتماد اور یکسوئی سے اپنی پالیسیوں کی تشکیل اور اس پر کاربند ہوں تو صورتحال بہت بہتر ہو سکتی ہے ۔بجٹ میں سب سے خوش کن چیز یہی ہے کہ یہ ٹیکس فری بجٹ ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں