عوامی نیشنل پارٹی پی ڈی ایم سے الگ : نوٹس کیوں بھیجا؟ کچھ جماعتیں اپنے مقاصد کیلئے اتحاد کو استعمال کرنا چاہتیں : امیر حیدر ، جھکنے، بکنے کے بھی طریقے ہیں ، غفور حیدر ، جمہوریت کو نقصان پہنچایا : مریم اورنگزیب
دو تین جماعتیں دیوار سے لگانا چاہتیں،شوکاز سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش ،پنجاب میں بلامقابلہ سینیٹرزمنتخب کرانے پر بھی وضاحت ہونی چاہئے :سینئر نائب صدر اے این پی ، اے این پی نے فاش غلطی کی :جنرل سیکرٹری جے یو آئی،فیصلے پر دکھ ہوا:احسن اقبال،ساجد میر، پیپلزپارٹی کا بھی شوکاز کا سخت جواب دینے کا فیصلہ، ایمل ولی کا بلاول بھٹو سے فون پر رابطہ
اسلام آباد، پشاور (سٹاف رپورٹر، دنیا نیوز ،مانیٹرنگ ڈیسک،نیوز ایجنسیاں)پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی طرف سے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو شو کاز نوٹس جاری کرنے کے بعد اے این پی نے سخت رد عمل دیتے ہوئے اپوزیشن اتحاد سے راہیں جدا کرنے اور اتحاد کے عہدوں سے دستبرداری کا اعلان کر دیا۔ اے این پی کے مرکزی سینئر نائب صدر امیر حیدر خان ہوتی کا کہنا ہے کچھ جماعتیں اپنے مقاصد کیلئے اتحادکو استعمال کرنا چاہتی ہیں ۔ اے این پی کے فیصلے پر جے یو آئی کے جنرل سیکرٹری مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ جھکنے ، بکنے کے بھی طریقے ہیں جس طرح کا پیپلزپارٹی اوراے این پی نے کا کردار ادا کیا اس سے جگ ہنسائی ہوئی جبکہ مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا اے این پی نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا ، اس کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں ۔ عوامی نیشنل پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس مرکزی سینئر نائب صدر امیر حیدر خان ہوتی کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس کے بعدباچا خان مرکز میں سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین، مرکزی ترجمان زاہد خان، چاروں صوبوں کے صدور اور جنرل سیکرٹریز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں امیر حیدر ہوتی کا کہنا تھا کہ پارٹی اجلاس میں شوکاز نوٹس کا جائزہ لیا گیا، پارٹی اجلاس کا ایجنڈا صرف شوکاز نوٹس تھا۔ پی ڈی ایم کی جانب سے شوکاز نوٹس کے ذریعے اے این پی کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی، شو کاز نوٹس سیاسی جماعتوں کے اندر دیئے جاتے ہیں، پی ڈی ایم سیاسی جماعت نہیں سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے ۔ نائب صدر کی حیثیت سے پی ڈی ایم سے علیحدگی کا اعلان کرتا ہوں، اے این پی اپوزیشن اتحاد سے تمام عہدے چھوڑ دے گی۔انہوں نے کہا کہ آج بھی ڈیکلیریشن، چارٹر کے اصولوں کو ہم سپورٹ کرتے ہیں، ہم انہی اصولوں پر سیاسی سفر کو جاری رکھیں گے ، کامیاب تحریک سے سلیکٹرز پر بھی دباؤ آیا، پی ڈی ایم کی کامیاب تحریک چلائی گئی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ استعفوں پر اختلاف رائے کے باعث لانگ مارچ ملتوی کیا گیا، اے این پی کاموقف تھاکہ متفقہ استعفوں کے بغیرلانگ مارچ بے اثرہوگا، اجلاس میں متفقہ فیصلہ ہوا اورلانگ مارچ ملتوی کیاگیا۔انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں ہمیں کیوں شوکاز نوٹس بھیجا گیا، ہمیں دیوار سے لگا دیا گیا۔ اے این پی سے جواب لینے کا اختیار صرف اسفند یار ولی کو ہے ۔ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر پیپلز پارٹی کے تحفظات تھے ۔امیر حیدر خان ہوتی کا کہنا تھا کہ پنجاب میں سینیٹ الیکشن بلا مقابلہ جیتنے پر بھی وضاحت ہونی چاہئے تھی، لاڑکانہ میں جے یو آئی اور پی ٹی آئی میں اتحاد ہوگیا تو اس پر بھی وضاحت ہونی چاہئے تھی۔ اس شوکاز کا واضح مطلب ہے کہ یہ ہماری ساکھ کو متاثر کرنا چاہ رہے ہیں۔ کیا جلدی تھی اس نوٹس کی؟ مولانا کے صحتیاب ہونے کا انتظار کرتے اور بعد میں اجلاس بلالیتے ، واضح ہے کہ کچھ جماعتیں اپنے مقاصد کیلئے پی ڈی ایم کو استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ان کا کہنا تھاسینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے لیے پی ڈی ایم کے دو امیدوار سامنے آئے ،ن لیگ کے امیدوار پر پیپلز پارٹی کو تحفظات تھے ، مناسب یہ ہوتا کہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں اس معاملے کو رکھا جاتا اور ان اعتراضات کو دور کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا تو اے این پی نے پیپلزپارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے امیدوار کو ووٹ کیوں دیا اس کے بارے میں اجلاس میں پوچھا جاتا تو ہم اس کا جواب دیتے اور تمام پارٹیوں کو موقع دیا جاتا بجائے اس کے ہمیں شوکاز نوٹس بھیج دیا گیا۔انہوں نے کہا شوکاز نوٹس اور جواب طلبی سیاسی جماعت کے اندر پارٹی عہدیدار سے ہوتی ہے ۔ان کا کہنا تھا اے این پی پی ڈی ایم کا حصہ ہے لیکن ہم نہ مسلم لیگ ن میں ضم یا شامل ہوئے اور نہ ہی جمعیت میں ضم یا شامل ہوئے اور نہ ہی پی ڈی ایم کی کسی اور جماعت میں شامل ہوئے ، ہماری الگ پارٹی اور اپنی شناخت ہے ، اے این پی کو شوکاز نوٹس دینے کا اختیار اسفندیار ولی کو ہے ۔اے این پی کے سینئر نائب صدر نے کہا اگر جواب طلبی کرنی تھی اور وضاحت چاہئے تھی تو ہم دینے کو تیار تھے اگر اس پر وضاحت چاہئے تھی تو پنجاب میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق)کو ساتھ ملا کر بلامقابلہ سینیٹرز منتخب کروائے گئے کیا اس پر وضاحت نہیں بنتی تھی۔انہوں نے کہا خیبر پختونخوا میں صرف 2 جنرل سیٹیں جیت سکتے تھے لیکن یہاں تیسرے امیدوار کو لا کر ٹیکنوکریٹ اور خاتون کی سیٹ ہمارے ہاتھ سے گئی، آیا اس پر وضاحت نہیں بنتی، لاڑکانہ میں پیپلزپارٹی کے خلاف جے یو آئی اور پی ٹی آئی کا اتحاد ہوگیا ، اس پر وضاحت نہیں ہونی چاہئے ، ظاہر ہے اس پر بھی وضاحت ہونی چاہئے تھی لیکن اس پر شوکاز نوٹس نہ مسلم لیگ (ن)اور نہ مولانا کو دیا جا سکتا اور اگر کوئی دے گا تو کس حیثیت میں دے گا۔امیرحیدر ہوتی نے کہا مولانا اور شاہد خاقان عباسی ہمارے لیے قابل احترام ہیں، ہمیں مولانا سے توقع تھی کہ وہ پی ڈی ایم کے سربراہ اور شاہد خاقان عباسی پی ڈی ایم کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے قدم اٹھائیں گے ، ہمیں یہ توقع نہیں تھی کہ وہ مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی حیثیت سے قدم اٹھائیں گے ۔انہوں نے کہا ہمیں پتا ہے یہ شوکاز نوٹس کیوں دیا گیاہے ، اگر ان کو وضاحت چاہئے تھی تو شاہد خاقان عباسی، اویس نورانی اور عبدالغفور حیدری میرے گھر آئے تھے اس حوالے سے جو وضاحت چاہئے تھی وہ ان کو مل چکی ہے ۔اے این پی کے سینئر نائب صدر نے کہا وضاحت کے باوجود انہوں نے شوکاز نوٹس دیا ہے تو اس کا مطلب بڑا واضح ہے کہ وہ سیاسی طور پر اے این پی کی ساکھ کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، واضح ہے دو یا تین جماعتیں مل کر پی ڈی ایم کے فیصلے کرنا چاہتی ہیں۔انہوں نے کہا اس میں یہ بھی واضح ہے کہ وہ جماعتیں اے این پی اور پیپلز پارٹی کو رکاوٹ سمجھتی ہیں اور ہمیں دیوار سے لگانا چاہتی ہیں۔ان کا کہنا تھا جو طریقہ اپنایا گیا وہ بڑا واضح ہے کہ پی ڈی ایم کو کچھ مخصوص جماعتیں اپنے مفاد اور اپنی ترجیحات کے مطابق استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ہماری نظر میں ایجنڈا وہی ہے جو 20 ستمبر کو تھا، ذاتی ایجنڈے کی گنجائش نہیں ہے اور اگر کوئی ذاتی ایجنڈا لے کر چلے گا تو کم از کم اے این پی ایسے سفر پر ساتھ نہیں دے سکتی۔انہوں نے کہا ہم سلیکٹڈ حکومت اور سلیکٹر زکے خلاف اور شفاف انتخابات کے لیے میدان میں تھے ، آج بھی ہیں اور میدان میں رہیں گے ، کوئی برابری کی بنیاد پر سیاسی انداز میں بات کرے گا تو ہم بات کرنے کو تیار ہیں لیکن کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہم ان کو وہ حیثیت دیں جیسے کہ وہ ہماری پارٹی کے سربراہ ہیں تو وہ ممکن نہیں ہوگا۔امیر حیدر ہوتی نے کہا ہم طویل مشاورت کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جن اغراض و مقاصد کے لیے پی ڈی ایم قائم کی گئی آج ہمیں نظر آرہا ہے کہ پی ڈی ایم کو شاید اس سے دور لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے ، پی ڈی ایم کو ذاتی سیاسی ایجنڈے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ان کا کہنا تھا ہم کسی کے ذاتی ایجنڈے کا ساتھ نہیں دے سکتے ۔ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کیونکہ جنہوں نے شوکاز نوٹس دیا ہے انہوں نے خود ہی پی ڈی ایم کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے ، اس لیے میں پی ڈی ایم کے نائب صدر ،میاں افتخار حسین ترجمان اور زاہد خان ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے دستبردار ہو رہے ہیں۔دوسری طرف جمعیت علماء اسلام کے سیکرٹری جنرل عبد الغفور حیدری نے اے این پی کی جانب سے مولانا فضل الرحمن پر الزامات کے ردعمل میں کہا کہ تاریخ میں ایسا رسوا کن عمل نہیں ہوا۔ٹی وی سے گفتگو میں عبدالغفورحیدری کا کہنا تھا جھکنے اور بکنے کے بھی طریقے ہوتے ہیں جس طرح کا پیپلزپارٹی اوراے این پی نے کا کردار ادا کیا اس سے جگ ہنسائی ہوئی۔ان کا کہنا تھا اے این پی نے اعتراف کیا کہ ہم نے یاری دوستی میں یہ قدم اٹھایا، اصول اپنی جگہ ہوتے ہیں ، ایسے حالات میں شوکاز نوٹس تو آنا تھا جو کہ کوئی بری بات نہیں۔عبدالغفورحیدری نے کہا یہ اتحاد تحریک کے لئے ہے انتخابات کے لئے نہیں ۔ تحریکوں میں وہ لوگ چلتے ہیں جو تمام دباؤ کو برداشت اور مشکلات کو عبور کرنے کے ساتھ کشتیاں جلا کر چلتے ہیں، اگر یہ جماعتیں دباؤ برداشت نہیں کرتیں تو ان کی مرضی۔انہوں نے کہا پوری قوم توقع کررہی تھی کہ پی ڈی ایم کی تحریک سے مہنگائی سے نجات ملے گی اور آٹے ،چینی کی کرپشن سے چھٹکارا ملے گا،اے این پی نے فاش غلطی کی اور مولانا فضل الرحمن پر الزام لگایا، ان پرالزام لگانا مناسب نہیں تھا۔رہنما جے یو آئی کا کہنا تھا بعض دفعہ کمپرومائز ہوتا ہے لیکن اس سے تحریک کو نقصان نہیں ہونا چاہئے ، یہ وقت بتائے گا کہ کس نے غلطی کی ہے ۔ مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا ہے پی ڈی ایم سے علیحدگی کے عوامی نیشنل پارٹی کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔دنیا نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا پی ڈی ایم حکومت کے خلاف بڑے مقصد کے لئے بنائی گئی تھی، عوامی نیشنل پارٹی کے فیصلے سے دکھ ہوا۔اے این پی کی طویل جدوجہد ہے ، شوکاز نوٹس کے ذریعے پیپلز پارٹی اور اے این پی سے وضاحت مانگی تھی۔ مریم اورنگزیب نے کہا اے این پی نے علیحدگی اختیار کرکے پی ڈی ایم کو نہیں جمہوریت کو نقصان پہنچایا،پی ڈی ایم کی جنگ جمہوریت پرشب خون مارنے والوں اور سیاست کو ذاتی مفادات کیلئے استعمال کرنیوالوں کیخلاف ہے ۔مریم اورنگزیب نے کہا پی ڈی ایم کے چارٹر کی کوئی بھی جماعت نفی کرتی چاہے وہ مسلم لیگ(ن) ہی کیوں نہ ہو سب کو اس کا جواب دینا پڑتا اور دینا پڑے گا ۔شوکاز نوٹس کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا یہ شوکاز نوٹس نہیں تھا بلکہ وضاحتی نوٹس تھا جو مولانا فضل الرحمن نے جاری کیا ، پیپلزپارٹی باپ پارٹی کے ووٹوں سے اپنا اپوزیشن لیڈر لائی اور اے این پی نے بھی اس کو سپورٹ کیا تو اس چیز کی وضاحت مانگی گئی جو انہیں دینی چاہئے تھی ۔ انہوں نے کہا پی ڈی ایم کا مقصد خالی سیاسی نہیں تھا پی ڈی ایم بہت بڑے مقاصد کیلئے بنی تھی جس کو پیپلزپارٹی اور اے این پی نے باپ پارٹی کے ساتھ اتحاد کرکے نقصان پہنچایا ۔انہوں نے کہا سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ پی ڈی ایم نے دیا تھا اور اس فیصلے میں پیپلزپارٹی اور اے این پی بھی شامل تھی۔ دونوں جماعتوں نے اتفاق کیا تھا کہ اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ(ن) کا ہوگا لیکن وہ اپنے وعدے سے مکر گئیں ۔یوسف رضا گیلانی چیئرمین شپ کا الیکشن ہار گئے تھے تو پیپلزپارٹی دوبارہ پی ڈی ایم میں آتی اور کہتی ہم چاہتے ہیں یوسف گیلانی اپوزیشن لیڈر بنیں تو نوازشریف ان کیساتھ مکمل تعاون کرتے اور یہ عہدہ بھی پیپلزپارٹی کو دے دیتے کیونکہ نوازشریف کا مقصد سیاسی نہیں بلکہ ملک میں حقیقی جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی ہے ۔مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہا اے این پی کے فیصلے سے دکھ ہوا ،دنیا نیوز کے پروگرام ‘‘نقطہ نظر ’’میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا پاکستان اس وقت سیاسی جدوجہد سے گزررہا ہے ،پی ڈی ایم میں سب کے ساتھ مل کر چلنے کی کوشش کی،پیپلزپارٹی نے سی ای سی میں استعفوں کافیصلہ کرنا تھا،پی ڈی ایم میں شامل 8 جماعتوں کا موثر انتخابی اتحاد بن سکتا ہے ،پیپلزپارٹی اوراے این پی کی پی ڈی ایم سے علیحدگی کی وجہ شوکاز نوٹس نہیں۔ احسن اقبال نے کہا مریم نواز کہیں نہیں جا رہیں وہ حکومت کو بھیجے بغیر نہیں جائیں گی۔ مریم نواز نے باہر جانے سے متعلق اپنا موقف بیان کر دیا ہے ۔انہوں نے کہا اگر مریم نواز کسی ادارے سے متعلق بات کرتی ہیں تو وہ اصلاح کے لئے کرتی ہیں، موجودہ حکومت نے تمام اداروں کو اتنا متنازعہ کر دیا ہے کہ اب کسی ادارے کی غیر جانبداری برقرار نہیں۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے نائب صدر سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے اے این پی کی طرف سے پی ڈی ایم سے علیحدگی کے فیصلے کو افسوس ناک قراردیدیا۔ساجد میر نے کہا پی ڈی ایم مختلف نظریات اور دستور رکھنے والی جماعتوں کا فورم ہے لیکن سسٹم کی تبدیلی پرسب کا کامل اتفاق تھا۔ اتحادی سیاست بڑی نازک اور حساس ہوتی ہے ۔ سیاسی اخلاقیات کا تقاضا تھاکہ اے این پی شوکاز نوٹس کا جواب دیتی، اے این پی نے علیحدگی کا اعلان کرکے جذباتی اور غیر سنجیدگی کا مظاہر ہ کیا جس پر ہمیں افسوس ہے ۔ پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم کی جانب سے شوکاز نوٹس جاری کرنے پربھرپور اور سخت جواب دینے کا فیصلہ کرلیا۔پیپلز پارٹی ذرائع کے مطابق چیئرمین بلاول بھٹو نے پارٹی کے سینئر رہنمائوں کو سخت جواب دینے کی ہدایت کر دی ۔اس حوالے سے شیری رحمن،راجہ پرویز اشرف،فرحت اللہ بابر،نیئر بخاری اور دیگر شوکاز نوٹس کا جواب تیار کریں گے ۔شوکاز نوٹس کا جواب تیار کرکے حتمی منظوری کے لئے سابق صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کو بھجوایا جائے گا۔پیپلز پارٹی نے شوکاز نوٹس جاری ہونے کے بعد فوری سی ای سی کا اجلاس بھی طلب کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔پیپلز پارٹی ذرائع کے مطابق شوکاز نوٹس کا جواب مصالحانہ کے بجائے جارحانہ انداز میں دیا جائے گا ۔پیپلزپارٹی شوکاز نوٹس میں ن لیگ اور پی ڈی ایم کی پالیسی کو ہدف تنقید بنائے گی۔پیپلز پارٹی شوکاز نوٹس کے الزامات پر جلد پریس کانفرنس بھی کرے گی اور پی ڈی ایم کے اتحاد کو توڑنے کی کوششوں کا ن لیگ کو ذمہ ٹھہرائے گی۔دریں اثنائپی ڈی ایم سے علیحدگی کے بعد عوامی نیشنل پارٹی خیبرپختونخوا کے صدر ایمل ولی خان نے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو سے رابطہ کیا ۔ ایمل ولی خان نے فون کرکے بلاول کو پی ڈی ایم سے الگ ہونے کے فیصلے سے باضابطہ آگاہ کیا۔ایمل ولی نے کہا کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسری پارٹی کو شوکاز نوٹس بھیجے ،ہم اپنا لائحہ عمل خود تیار کریں گے ۔بلاول نے پی ڈی ایم میں شامل بعض جماعتوں کے روئیے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کچھ جماعتیں اپوزیشن کے خلاف اپوزیشن کرنا چاہتی ہیں جس کا فائدہ حکومت کو ہوگا۔