3 ماہ میں 54ہزار مقدمات کا فیصلہ۔۔۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد امیر بھٹی کے تاریخ ساز اقدامات , 69 ججوں کا تقرر 10 روز میں مکمل کیا ،وکلا اور سائلین کا خراج تحسین
ڈائریکٹوریٹ آف ڈسٹرکٹ جوڈیشری نے ماتحت عدلیہ کے ججز سے متعلق10ہزار 273فائلیں نمٹائیں ، ماتحت عدلیہ کو 715کنال اراضی کی منتقلی اور انفراسٹرکچر کی بہتری کیلئے 2ارب 33کروڑ روپے خرچ
لاہور (خصوصی رپورٹ : محمد اشفاق) چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد امیر بھٹی کے تاریخی اقدامات کے ثمرات براہ راست سائلین کو ملنے لگے لاہورہائیکورٹ کی پرنسپل سیٹ اور تمام بینچز پر صرف تین ماہ 54 ہزار سے زائد مقدمات کے فیصلے سنائے گئے تاریخ میں پہلی مرتبہ لاہورہائیکورٹ میں پیپر لیس منصوبہ پر کام شروع کردیا گیا وکلا کو ریگولر مقدمات کی کاز لسٹ کی ہارڈ کاپی دینے کی بجائے بذریعہ ای میل اور واٹس ایپ بھیجنے کا سلسلہ جاری ہے، جس سے روزانہ کی بنیاد پر بڑے پیمانے پر کاغذ کے استعمال اور اس پر آنے والی لاگت پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ قیمتی وقت کو بھی ضائع ہونے سے بچایا گیا جبکہ پنجاب میں وفاقی عدالتوں میں عرصہ دراز سے ججز کی تقرریاں نہ ہونے سے لاکھوں مقدمات التوا کا شکار تھے چیف جسٹس امیر بھٹی کے احکامات پر69 ججز کی تقرریوں کا عمل دس روز میں مکمل کیاگیا سائلین کو بروقت انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے عملی اقدامات پر وکلا اور سائلین نے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد امیر بھٹی کو زبردست خراج تحسین پیش کیا جبکہ انتظامی سطح پر کئی سالوں سے زیرالتومعاملات کو چند ہفتوں میں نمٹا دیا۔ 6جولائی 2021کو چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ محمد امیر بھٹی نے عہدہ کا حلف اٹھایا تھا چیف جسٹس نے حلف اٹھانے کے بعد سائلین کے ساتھ ساتھ وکلا کی فلاح و بہبود اور ماتحت عدلیہ کو جدت سے استوار کرنے کے عزم کا اظہار کیاتھا جس کے بعد چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ محمد امیر بھٹی کی بنائی گئی پالیسز کے نتیجہ میں سائلین کو بروقت انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے عملی اقدامات سامنے آئے جس سے سائلین نے تو سکھ کا سانس لیا ہی اس کے ساتھ ساتھ وکلا برادری بھی چیف جسٹس امیر بھٹی کے اقدامات سے خوش ہے چیف جسٹس امیر بھٹی نے عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد کسی بھی انتظامی فائل کو تین دن سے زیادہ زیرِ التواء نہ رکھنے کی ہدایات جاری کیں اور ان ہدایات پر سختی سے عملدرآمد کروایا جس کے نتیجے میں جولائی 2021 سے دسمبر 2021 تک مجموعی طور پر لاکھوں انتظامی فائلوں کو نمٹایا گیا، جو پچھلے کئی سالوں سے زیرِ التواء تھیں۔اس مدت کے دوران صرف رجسٹرارآفس نے ہی ساڑھے گیارہ ہزار سے زائد انتظامی فائلوں کو نمٹایا۔ ا سکے ساتھ ساتھ چیف جسٹس ڈائریکٹوریٹ آف جوڈیشل اینڈ کیس مینجمنٹ کا قیام عمل میں لائے، جس میں اب تک تقریباَ دولاکھ 22 ہزار سے زائد فائلوں پر کام ہوچکا ہے۔ چیف جسٹس محمد امیر بھٹی کی جانب سے ہر 15 دن بعد لاہور ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی کا اجلاس بلانے کی حکمت عملی اپنائی گئی، تاکہ عدالتی افسران اور لاہور ہائی کور ٹ سے متعلق تاخیر کا شکار تمام ترمعاملات کو جنگی بنیادوں پر نمٹایا جائے، جسکی ماضی میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اسی حکمت عملی کے تناظر میں لاہور ہائی کورٹ انتظامی کمیٹی کے چار اجلاس منعقد ہوئے، جن میں 86 معاملات زیر بحث آئے اور 71 معاملات پر فیصلے کئے گئے۔ علاوہ ازیں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز، سینئر سول ججز اور سول ججز کے بڑے پیمانے پر تبادلوں سمیت جوڈیشل افسران کیلئے پروفارمہ پروموشن اور پر فارمنس ایویلیوایشن کمیٹیوں کے اجلاس بھی منعقد ہوئے، جن میں 80 سے زیادہ سول ججز کو ٹائم سکیل پروموشن دی گئی۔عدالت عالیہ کی تاریخ میں پہلی بار عدالتی افسران کی ایمانداری، عدالتی کارکردگی اور دیگر سروس ریکارڈ کی بنیاد پر تبادلوں اور تعیناتیوں کا بھی اِک میرٹ ترتیب دیا گیا اور جو افسران سالہاسال سے اپنے من پسند ضلعوں میں تعینات تھے، ان کو بھی متذکرہ بالا درجہ بندی اور میرٹ کی کسوٹی پر ضلعی یا ایکس کیڈر کورٹس میں تعینات کیا گیا۔اسی مدت کے دوران آٹھ سول ججز اور دو ایڈیشنل سیشن ججز کو بھی میرٹ پر بھرتی کیاگیا، جن کو پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں تین مہینوں پر مشتمل عملی تربیت دینے کے بعد حال ہی میں مختلف اضلاع کی عدالتو ں میں تعینات کردیا گیا ہے۔ ڈائریکٹوریٹ آف ڈسٹرکٹ جوڈیشری کی جانب سے ماتحت عدلیہ کے ججز سے متعلق 10 ہزار273 فائلز پر کام کیا گیا۔ جوڈیشل افسران کو گاڑیوں اور لیپ ٹاپس سمیت متعدد سہولیات کی فراہمی کے لئے نئی حکمتِ عملی بنا کر اقدامات کئے گئے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اپنے منصب کا حلف لینے کے فوراَ بعدہی پنجاب میں قائم صوبائی و وفاقی ایکس کیڈر کورٹس میں ججز کی تعیناتی کے معاملے کوترجیحی بنیادوں پر اٹھایا اور تمام متعلقہ حکام کے ساتھ میٹنگز کرکے یقینی بنایا کہ پنجاب میں قائم کوئی بھی صوبائی و وفاقی ایکس کیڈر عدالت خالی نہ رہے، اور اس سلسلے میں ان عدالتوں کے لئے ججز کی نامزدگیوں کے دس روز کے اندر تعیناتی کی پالیسی پر عملدرآمد کرایا۔ جس کے نتیجے میں صوبہ بھر کی 15 مختلف ایکس کیڈر کورٹس میں 69 ججز کو تعینات کر کے ان عدالتوں کو فعال کیا گیا۔ اس کے علاوہ ان عدالتوں میں تعیناتی کے لئے ججز کے تین نام کے پینل کی سفارشات کی بجائے صرف ایک جج کے نام کی سفارش کا اصلاحاتی قدم بھی اٹھایا گیا، جس سے اس عمل میں تاخیر سے عملدرآمد کرنے میں خاطر خواہ کمی آئی۔ جبکہ چیف جسٹس نے نئے سیل("Cell") کی تشکیل دی ہے، جس کا مقصد ملازمین و افسران کی طرف سے بیماری پر خرچ کئے گئے اخراجات کی re-imbursement کے معاملات میں جعلی بلز اور دیگر بے قاعدگیوں کا تدارک ہے۔ سیل کے قیام کے نتیجے میں میڈیکل کلیمز میں حیرت انگیزکمی واقع ہوئی ہے، جس سے ہائی کورٹ کے اس مد میں قیمتی بجٹ کے ضیاع میں بھی قابل ذکر کمی ہوئی ، جوکہ اصل اور مستحق ملازمین اور انکے اہلِ خانہ کے علاج معالجے اور فلاح و بہبود پر خرچ ہو سکے گا۔چیف جسٹس کا ایک اور اصلاحاتی قدم "Daily Report Pluse" کا نظام متعارف کرانا ہے، جس کے تحت روزانہ اور ہفتہ کی بنیاد پر افسران و ملازمین کی دفترآمد ، روانگی اور حاضری کی رپورٹ رجسٹرار صاحب کو پیش کی جاتی ہے۔ اس نظام کے متعارف کروانے کے بعد دفتری عملے اور افسران کے نظم و ضبط اور اپنے دفاترو برانچز میں موجود رہنے کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اسی طرح ضلعی عدالتوں میں بھی احتساب کے ضابطے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے چیف جسٹس نے حال ہی میں دو جوڈیشل افسران کو ملازمت سے برخاست کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں۔لاہور ہائی کورٹ میں وکلاء ، سائلین اور سٹاف کو سہولیات کی فراہمی کے لئے پروکیورمنٹ سیکشن میں 560 فائلز پر کام کیا گیا اور تقریباً 245 ملین کی خطیر رقم سے مختلف اشیاء کی خریداری کے لئے ٹینڈرز جاری کئے گئے۔ بلڈنگ سیکشن میں 543 مختلف فائلز پر کارروائی کی گئی جس کے نتیجے میں صوبہ بھر کی عدلیہ کو 715 کنال سے زائد زمین کی منتقلی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ موجودہ انفراسٹرکچر کی بہتری کے لئے 2ہزار 330 ملین کے فنڈز استعمال کئے گئے۔بلڈنگ کے شعبے میں خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے پولیس خدمت مرکز کا قیام، وکلاء کے لئے سہولت سنٹر کا قیام اور خواتین و مرد سائلین کے بیٹھنے کے لئے جدید سہولیات سے آراستہ علیحدہ علیحدہ انتظار گاہوں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ،لاہور ہائی کورٹ اوورسیز سیل کو 141 درخواستیں و شکایات موصول ہوئیں، جن کو خوش اسلوبی سے حل کیا گیا اور اوورسیز پاکستانیوں کو ریلیف فراہم کیا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ میں ججز، وکلاء، سائلین اور سٹاف کی بہترین سکیورٹی سہولیات کی فراہم کے لئے متعدد اقدامات کئے گئے اور عدالت عالیہ کی مسلسل سکیورٹی کے لئے 24 گھنٹے سرویلنس کو یقینی بنایا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ گیراج اور موٹر سائیکل پارکنگ میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب سمیت دیگر اقدامات بھی کئے گئے۔ لاہور ہائی کورٹ لیجسلیشن اینڈ ریسرچ ونگ کی جانب سے سروسز رولز اور متعلقہ معاملات کے حوالے سے 235کیسوں پر کام کیا گیا۔چیف جسٹس محمد امیر بھٹی کی ہدایت پر ترتیب دیئے گئے کیس مینجمنٹ پلان کی بدولت تقریباََ تین ماہ (6 ستمبر سے 10 دسمبر) میں مجموعی طور پر54 ہزار سے زائد مقدمات کے فیصلے کئے گئے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق تین ماہ کے قلیل عرصہ کے دوران فیصلہ شدہ مقدمات کی تعداد دائرشدہ نئے مقدمات سے بڑھ گئی ہے۔تفصیلات کے مطابق متذکرہ دورانیہ میں لاہور ہائی کورٹ پرنسپل سیٹ پر 26 ہزار482 مقدمات کے فیصلے ہوئے، جبکہ لاہور ہائی کورٹ ملتان بینچ پر تقریباََ17 ہزار مقدمات کے فیصلے ہوئے، اسی طرح بہاولپور اور راولپنڈی بینچ پر بالترتیب7 ہزار325 اور 3 ہزار730 مقدمات کے فیصلے ہوئے۔ مزید برآں بہت مختصر دورانیہ میں 231 ریگولر فرسٹ اپیلوں کے فیصلے بھی کئے گئے جس سے سائلین کے مبلغ 28 ارب روپے سے زائد مالیت کے معاملات حل ہوئے۔ اسی طرح 15 سو سے زائد سول ڈویژنوں سمیت2 ہزار320 سول مقدمات کے فیصلے بھی کئے گئے ، جس سے سائلین کو جلد، آسان اور معیاری انصاف کی فراہمی ممکن ہوئی۔ عدالتی افسروں و اہلکاروں کی ترقی ، اپ گریڈیشن جہاں چیف جسٹس سائلین اور وکلا کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کررہے ہیں وہیں چیف جسٹس امیر بھٹی نے عدالت عالیہ اور پنجاب کی ماتحت عدالتوں کے ملازمین کی عرصہ دراز سے زیر التواء پروموشن کے حوالے سے خصوصی اقدامات کئے لاہور ہائی کورٹ اور ضلعی عدالتوں کے افسران و اہلکاران کی ٹائم سکیل پروموشن اور اپ گریڈیشن وغیرہ کے معاملات عرصہ تین سال سے جمود اور عدم عمل کا شکار تھے۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری فنانس اور اکائونٹنٹ جنرل پنجاب کے ساتھ خصوصی میٹنگز کرکے ان معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کرایا چیف جسٹس صاحب نے ملازمت کے دوران وفات پا جانے والے عدالتی افسران کے ورثاء کو نہ صرف ہائی کورٹ میں باعزت منصب پر بھرتی کیا، بلکہ حکومت کی طرف سے تمام ورثاء کو واجب الادامالی مفادات و مراعات کی ادائیگی کو بھی یقینی بنایا چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی ہدایت پر پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں جوڈیشل افسران اور لاہور ہائی کورٹ و ڈسٹرکٹ جوڈیشری کے سٹاف کے لئے تربیتی کورسز کا اہتمام بھی کیا گیا۔ پروکیورمنٹ سیکشن کے متعلقہ سٹاف کے لئے پیپرا رولز او رپروکیورمنٹ کے دیگر معاملات کے حوالے سے تربیتی ورکشاپس منعقد کرانا اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ اسی طرح ارجنٹ سیل اور ڈائریکٹوریٹ آف جوڈیشل اینڈ کیس مینجمنٹ میں تعینات سٹاف کے لئے کیس فلو مینجمنٹ سسٹم(CFMS) سے متعلق تربیتی ورکشاپس کا بھی اہتمام کیا گیا۔ بار اور بینچ کے تعلقات میں بہتری آئی صدر لاہورہائیکورٹ بارمقصودبٹر صدر لاہورہائیکورٹ بار مقصود احمد بٹر کاکہنا تھا چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ محمد امیر بھٹی کے اقدامات سے بار اور بینچ کے تعلقات میں جو بہتری آئی ہے اسے مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے کہاکہ چیف جسٹس امیر بھٹی جس طرح سے کورٹ چلا رہے ہیں قابل تحسین عمل ہے اس سے وکلا میں خود اعتمادی پیدا ہوئی ہے۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ کو بار کا مکمل تعاون حاصل سیکرٹری ہائیکورٹ بارخواجہ محسن سیکرٹری لاہورہائیکورٹ بار خواجہ محسن کا کہنا ہے کہ بینچ اور بار ایک دوسرے کے ساتھ لازم ملزوم ہیں انہوں نے کہاکہ سائلین کی مشکلات کے خاتمہ کے لیے بار چیف جسٹس محمد امیر بھٹی سے مکمل تعاون کررہی ہے اس سلسلے میں لاہورہائیکورٹ بار نے غیر ضروری اور ذاتی مفاد کے لیے کبھی ہڑتال نہیں کی تاکہ سائلین کو مشکلات نہ ہوں انہوں نے کہاکہ صرف قومی معاملے پر لاہورہائیکورٹ بار نے ہڑتال کی سیکرٹری لاہورہائیکورٹ بار خواجہ محسن عباس نے کہاکہ وکلا کا پارکنگ کا مسئلہ دیرینہ ابھی تک یہ مسئلہ حل نہ ہوسکا چیف جسٹس امیر بھٹی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وکلا کے لیے فوری پارکنگ پلازہ تعمیر کروایاجائے ۔ چیف جسٹس کے اقدامات کی بدولت انصاف کی بروقت فراہمی کے ویژن کو عملی جامہ پہنایا گیا وائس چیئرمین پنجاب بارفرحان شہزاد وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل فرحان شہزاد نے کہاہے کہ چیف جسٹس محمد امیر بھٹی کے اقدامات کی بدولت انصاف کی بروقت فراہمی کے ویژن کو عملی جامہ پہنایا گیا انہوں نے کہاکہ چیف جسٹس امیر بھٹی کے اقدامات کے فوائد براہ راست سائلین کو مل رہے ہیں وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل فرحان شہزاد نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ لاہورہائیکورٹ میں غیر ضروری نوعیت کی درخواستیں دائر کرنے پر پابندی ہے اس سے وکلا اور سائلین دونوں کا نقصان ہورہا ہے اس پابندی کو فوری ختم کیا جائے جبکہ لاہورہائیکورٹ کے دونوں اطراف میں وکلا ء کے لیے فوری پارکنگ پلازے کی تعمیر کی جائے ۔