لاہور ہائیکورٹ:پرویزالہٰی وزیراعلیٰ کے عہدے پر بحال،کا بینہ فعال،گورنر کا حکم معطل:11 جنوری کو مزید سماعت تک پنجاب اسمبلی نہ توڑنے کی حلفیہ یقین دہانی

لاہور  ہائیکورٹ:پرویزالہٰی  وزیراعلیٰ  کے  عہدے   پر  بحال،کا  بینہ    فعال،گورنر  کا  حکم  معطل:11  جنوری   کو  مزید  سماعت  تک  پنجاب  اسمبلی  نہ  توڑنے  کی  حلفیہ  یقین  دہانی

لاہور(محمداشفاق سے ،مانیٹرنگ ڈیسک،دنیا نیوز)لاہور ہائی کورٹ نے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو اسمبلی تحلیل نہ کرنے کی حلفیہ یقین دہانی پر گورنر کا حکم معطل کرتے ہوئے عہدے پر بحال جبکہ کابینہ کو فعال کردیا ۔

 لارجر بینچ نے گورنر ، اٹارنی جنرل ،ایڈووکیٹ جنرل سمیت فریقن کو نوٹسز جاری کرکے 11جنوری تک جواب جمع کرانے کا حکم دیا ۔عدالت نے تحریری فیصلہ بھی جاری کردیا جس میں کہا گیا عدالت کایہ حکم پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے سے نہیں روکتا ،ہم وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا پابند نہیں کر رہے ۔لاہورہائیکورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ لارجر بینچ میں جسٹس چودھری اقبال ،جسٹس طارق سلیم شیخ ، جسٹس مزمل اختر شبیر اور جسٹس عاصم حفیظ شامل ہیں ۔پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر نے موقف اختیار کیاکہ پٹیشن آئین کے آرٹیکل 199کے تحت دائر کی گئی گورنر پنجاب نے آئین کے آرٹیکل 130 کی سب سیکشن 7کی غلط تشریح کی۔درخواست گزار جولائی 2022 میں وزیر اعلیٰ بنا درخواست گزار نے وزیر اعلیٰ کے الیکشن میں 188 ووٹ حاصل کیے ڈپٹی سپیکر نے ق لیگ کے دس ووٹ کاؤنٹ نہیں کیے معاملہ سپریم کورٹ گیا جہاں سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا، آئین کے مطابق وزیر اعلیٰ کو عہدے سے ہٹا نے کے لیے دو طریقہ کار ہیں پہلا طریقہ کار عدم اعتماد کی تحریک ہے عدم اعتماد کی تحریک آئین کے آرٹیکل 136 کے تحت جمع کرائی جاتی ہے ، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ گورنر وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہے ،آئین کے آرٹیکل 130 کے سب سیکشن 7 کے تحت گورنر وزیراعلیٰ کو اعتماد کو ووٹ لینے کا کہہ سکتا ہے اعتماد کے ووٹ کے لیے گورنر اجلاس سمن کرتا ہے لیکن گورنر کے پاس اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنے کے لیے ٹھوس وجوہات ہونی چاہئیں، گورنر عدم اعتماد کے لیے دن اور وقت کا تعین نہیں کر سکتا۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا جب عدم اعتماد کے لیے تین سے سات دن کا وقت ہے تو اعتماد کے ووٹ کے لیے ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ۔ علی ظفر نے بتایا عدم اعتماد کے لیے بھی طریقہ کار موجود ہے اراکین کو نوٹس دیتے ہیں ۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیاکہ رولز کے مطابق کیا اسی دن ووٹنگ نہیں ہو سکتی ۔وکیل نے بتایا رولز کے مطابق اعتماد کے ووٹ کا کہنے کے لیے مناسب وقت دینا ہوتا ہے اگر سپیکر سمجھے تمام ممبران پورے ہیں تو دو روز میں ووٹنگ ہوسکتی ہے مگر اگر سپیکر سمجھے کہ تمام ممبران کی شرکت کے لیے وقت دینا ضروری ہے تو مناسب وقت دیا جانا چاہیے ۔وکیل نے کہا گورنر نے اعتماد کے ووٹ کے لیے سپیکر کو خط لکھا ، وزیر اعلیٰ نے اعتماد کا ووٹ لینے سے انکار نہیں کیا ، اجلاس سپیکر نے بلانا ہے وزیر اعلیٰ خود سیشن نہیں بلا سکتا ، اجلاس ہوا ہی نہیں تو پھر گورنر نے خود سے کیسے فیصلہ کرلیا ۔ اجلاس بلانے کے اختیارات سپیکر کے پاس ہیں ۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا اگر گورنر نے اعتماد کے ووٹ کا کہا ہے تو اس پر عملدرآمد تو ہونا چاہیے ۔ وکیل نے کہا ضروری ہے کہ سپیکر ووٹنگ کے لیے دن مقرر کرے اور وزیر اعلیٰ کہے کہ اعتماد کا ووٹ نہیں لینا تو گورنر کوئی آرڈر پاس کر سکتے ہیں ۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ دو افراد کے درمیان لڑائی کے نتیجے میں سزا تیسرے کو دے دی جائے ۔جسٹس عابد عزیز نے ریمارکس دئیے رولز کے مطابق گورنر کو اعتماد کے ووٹ کے لیے تاریخ مقرر کرنے کا اختیار ہے مگر وہ تاریخ کتنے دن کی ہوگی وہ الگ بحث ہے ۔ بیرسٹرعلی ظفر نے دلائل دئیے گورنر رولز کے تحت تو یہ کرسکتا ہے مگر آئین کے تحت نہیں اجلاس ہوتا تو وزیر اعلیٰ اعتماد کا ووٹ لیتے ،وزیر اعلیٰ نے ہوا میں تو اعتماد کا ووٹ نہیں لینا ،گورنر کو اختیار نہیں ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کو ہٹائے ۔ جسٹس عابد عزیز نے کہا گورنر اعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتا ہے یہ تو رولز میں ہے ۔ علی ظفر نے کہا عدم اعتماد کے ووٹ کے لیے اسمبلی کا پروسیجر بھی ہے اس پورے پراسیس کے لیے مناسب وقت دینا چاہیے ۔ اگر کوئی سیشن ہی نہیں ہے تو وزیر اعلیٰ کہاں ووٹ لے گا ۔ میڈیا پر خبر آئی کہ ایک وزیر کی پرویز الٰہی کے ساتھ تکرار ہوئی اس نے استعفٰی دے دیا کہا گیا عمران خان نے بیان دیا کہ پرویز الٰہی کی کابینہ میں ایک اور وزیر کا اضافہ ہوا اور انہیں پتا ہی نہیں ان بنیادوں پر عدم اعتماد اور اعتماد کے ووٹ کا کہا گیا ۔ انکو یہ نظر نہیں آتا پرویز الٰہی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہیں یہ بیان بھی میڈیا پر آیا ۔ جسٹس عاصم حفیظ نے کہا گورنر صاحب ٹی وی کون سا دیکھتے ہیں ۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا گورنر نے صرف ایک دن کے نوٹس پر ووٹ لینے کا کہا۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا پھر کیا ہوا ؟ ۔علی ظفر نے بتایا سپیکر نے گورنر کے نوٹیفکیشن پر اپنی رولنگ دی ۔جسٹس عاصم حفیظ نے کہااگر جاری اجلاس میں گورنر نے ووٹ کا کہا تو پھر کیا ہوگا؟ ۔ وکیل نے بتایا سپیکر پہلے جاری اجلاس کو ختم کرے گا پھر نیا اجلاس ہوگا ۔جسٹس عابد عزیز نے کہا رولز میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ گورنرجاری اجلاس میں اعتماد کے ووٹ کے لیے نہیں کہہ سکتا ۔علی ظفر نے کہا اس بات سے اتفاق کرتا ہوں اجلاس کے لیے لاجک بھی ہونی چاہیے ۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا گورنر کا اختیار ہے کہ وہ جب مرضی ووٹ کا کہے ۔ بیرسٹر علی ظفر نے دلائل میں کہا میرا نقطہ یہ ہے کہ پڑوسیوں کی لڑائی میں سزا مجھے کیوں ملے ۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا اگر آپ کے پاس ارکان کی اکثریت ہے تو پھر ڈر کس بات کا ہے ؟یہ سارا بحران ختم ہوسکتا ہے فیصلہ تو اسمبلی نے ہی کرنا ہے مسئلہ حل ہوسکتا ہے ۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہمارا ایشو ہے کہ وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹی فائی کرنے کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جائے ۔ جسٹس عابد عزیز نے علی ظفر سے استفسارکیا آپ کہتے ہیں سیشن بلائے بغیر چیف منسٹر کو ڈی سیٹ کر دیا گیا ۔ یہ سارا پرا سیس تو اب بھی ہو سکتا ہے یہ سارا بحران حل ہو سکتا ہے اگر ووٹنگ کے لیے مناسب وقت دے دیا جائے ۔ علی ظفر نے کہا یہ تو تب ہو گا جب ڈی نوٹی فائی کا نوٹیفکیشن کالعدم ہو گا ۔ جسٹس عابد عزیز نے کہا یہ ہم دیکھیں گے جو قانون کے مطابق ہوا فیصلہ کریں گے ۔ علی ظفر نے کہا پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے ، اس میں کابینہ ہے مختلف پراجیکٹس چل رہے ہیں ، گورنرمنتخب ہو کر نہیں آتا ۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا گورنر کے احکامات میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگلے چیف منسٹر تک وزیر اعلی ٰکام جاری رکھیں گے ۔ علی ظفر نے کہااگر وزیر اعلیٰ رہے گا تو کابینہ بھی رہے گی کابینہ کے بغیر وزیر اعلیٰ نہیں رہ سکتا۔ جسٹس عابد نے کہا اگر ہم نوٹیفکیشن معطل کر کے وزیر اعلیٰ کو بحال کر دیتے ہیں تو کیا امکانات ہیں کہ آپ لوگ اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے ،آپ منظور وٹو کیس نکال کر پڑھیں شاید ایسا پہلے ہو چکا ہے ۔علی ظفر نے کہا وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس ہو چکی ہے ۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا اگر آپ اسمبلی کی تحلیل نہ کرنے سے متعلق انڈر ٹیکنگ دیتے ہیں تو پھر اس کو دیکھتے ہیں ۔ عدالت نے سماعت میں دس منٹ کا وقفہ کر دیا ، جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا علی ظفر صاحب آپ اپنے کلائنٹ سے ہدایات لے لیں ہم دس منٹ بعد دوبارہ بیٹھتے ہیں ۔آپکی انڈر ٹیکنگ لینے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی غلط استعمال نہ کر سکیں ،اگر ہم ریلیف دیتے ہیں اور آپ جا کر اسمبلی توڑ دیں تو پھر کیا ہوگاَ؟۔ عدالتی وقفہ کے بعد علی ظفر نے کہا اسمبلی کی تحلیل نہ کرنے سے متعلق انڈر ٹیکنگ کے لیے مزید وقت درکار ہے ۔ اگر عدالت پرویز الٰہی کو بحال کرتی ہے تو عدالت ہی حکم جاری کر دے کہ اسمبلی تحلیل نہیں ہو گی ۔ جسٹس عابدعزیز نے کہا ہم ایسا آرڈر کیسے جاری کر سکتے ہیں ۔ َ؟یا پھر ہم آپکو عبوری ریلیف نہ دیں ہمارا خیال تھا کہ ہمیں یقین دہانی کرادی جائے گی اسمبلی تحلیل نہیں ہوگی ہم کیسے مانیں کہ ہمارے حکم کا غلط استعمال نہیں ہوگا، اگر آپ 6بجے سے پہلے ہدایات لے آئیں تو عدالتی عملہ کو آگاہ کریں ہمیں یہ لگ رہا تھا کہ آپ کہیں گے کہ اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے ۔ جسٹس عاصم حفیظ نے کہا ہم آئین کا مینڈیٹ معطل نہیں کر سکتے ۔ لاہور ہائیکورٹ نے اسمبلی کی تحلیل سے متعلق علی ظفر کو اپنے کلائنٹ سے مشاورت کے لیے مزید ایک گھنٹے کا وقت دے دیا اور شام 6بجے تک پرویز الٰہی سے مشاورت کرکے جواب جمع کروانے کاحکم دیا۔

وقفہ کے بعد کارروائی کا آغاز ہوا تو مونس الٰہی،حسین الٰہی بھی بیرسٹرعلی ظفر کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے ۔ علی ظفر نے عدالت کو بتایا ہم عدالت میں حلف دے رہے ہیں اگر گورنر کا نوٹیفکیشن معطل کیا جاتا ہے تو آئندہ سماعت 11 جنوری تک اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے ۔ جسٹس عابدعزیز نے استفسار کیاکہ کیا آپ اعتماد کا ووٹ بھی لیں گے ؟۔ وکیل نے کہا اعتماد کے ووٹ کا معاملہ علیحدہ ہے اگر ہم چاہیں تو اعتماد کا ووٹ لے سکتے ہیں ۔بیرسٹر علی ظفر نے پرویز الٰہی کا دستخط شدہ بیان حلفی جمع کرادیا۔ دوران سماعت گورنر پنجاب کے وکیل خالد اسحاق نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا عدالت انہیں پابند کرے کہ پرویز الٰہی آئندہ تین روز میں اعتماد کا ووٹ لیں تو ہمیں نوٹیفکیشن واپس لینے میں کوئی عار نہیں ہے لیکن انہیں پابند کیا جائے یہ اعتماد کا ووٹ لیں۔ جسٹس عاصم حفیظ نے قرار دیا وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا پابند نہیں کر سکتے ۔لاہور ہائیکورٹ کے لارجر بینچ نے متفقہ طور پر گورنر پنجاب کی جانب سے پرویز الٰہی کو بطور وزیراعلیٰ پنجاب ڈی نوٹی فائی کرنے کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے پرویز الٰہی اور کابینہ کوبحال کردیا ۔عدالت نے 11جنوری تک پرویز الٰہی کو اسمبلی تحلیل کرنے سے روک دیا اور گورنر پنجاب ، اٹارنی جنرل،ایڈووکیٹ جنرل اور دیگر کو نوٹسز جاری کر تے ہوئے 11 جنوری تک جواب جمع کرانے کا حکم دیا۔بعد ازاں لاہور ہائیکورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف درخواست پر تحریری فیصلہ بھی جاری کر دیا۔

6 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا پرویز الٰہی اور کابینہ کو عبوری حکم کے طور پر بحال کیا جاتا ہے ، پرویز الٰہی کے وکیل نے حلف دیا کہ آئندہ سماعت تک اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے ،پرویز الٰہی نے بیان حلفی میں کہا ہے گورنر کو اگلی سماعت تک اسمبلی تحلیل کرنے کا مشورہ نہیں دوں گا لہذا گورنر پنجاب کا ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن معطل کیا جاتا ہے ۔ فیصلے میں کہا گیا وزیراعلیٰ اور کابینہ کواصل پوزیشن میں بحال کیا جاتا ہے ،عدالت کایہ حکم پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے سے نہیں روکتا، ہم وزیراعلیٰ کو اعتماد کے ووٹ کیلئے پابند نہیں کر رہے ، اہم قانونی نکات پر فریقین کو نوٹس جاری کئے جاتے ہیں۔اس سے قبل کیس کی سماعت شروع ہونے پہلے جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ سے قبل بنایا گیا بینچ اس وقت تحلیل ہوگیا تھا جب جسٹس فاروق حیدر نے درخواست پر سماعت سے معذرت کرلی ۔بینچ کے سربراہ جسٹس عابد عزیز نے کہا تھا جسٹس فاروق حیدر درخواست گزار کے وکیل رہ چکے ہیں ہم نے کیس کی فائل نئے بینچ کے لیے چیف جسٹس امیر بھٹی کو بھجوا دی ہے ۔اس موقع پر پرویز الٰہی کے وکیل نے کہا ہماری استدعا ہے کیس کوجمعہ کو ہی سماعت کے لیے مقرر کیا جائے ۔بعد ازاں جسٹس عابد عزیز شیخ کی جانب سے بھیجی گئی درخواست پر چیف جسٹس نے نیا لارجر بینچ تشکیل دے دیا جس میں جسٹس فاروق حیدر کی جگہ جسٹس عاصم حفیظ کو شامل کیا گیا۔ پرویز الٰہی نے گورنر پنجاب کی جانب سے خود کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ڈی نوٹی فائی کرنے کا اقدام چیلنج کرتے ہوئے مؤقف اپنایا سپیکر کے اجلاس نہ بلانے پر وزیر اعلیٰ اور کابینہ کو ڈی نوٹیفائی کرنا غیر آئینی ہے ۔درخواست میں گورنر کو بذریعہ پرنسپل سیکرٹری اور چیف سیکرٹری فریق بنایا گیا تھا۔

لاہور(سیاسی رپورٹرسے ، سپیشل رپورٹر )پنجاب اسمبلی میں گورنر پنجاب بلیغ الرحمن کے پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے غیر قانونی اقدام کے خلاف قرار داد منظور کر لی گئی ۔ قرار داد میں مطالبہ کیا گیا گورنر نے اختیارات سے تجاوز ،ایوان کا استحقاق مجروح کیا صدر انہیں فوری عہدے سے معزول کریں۔ اپوزیشن اور حکومتی ارکین ایک دوسرے کے خلاف سراپا احتجاج رہے ، اپوزیشن اراکین نے سپیکر ڈائس کا گھیرائو بھی کیا ، پنجاب اسمبلی کا اجلاس مچھلی منڈی بنا رہا ،کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی سپیکر بھی بے بس دکھائی دئیے ۔ بعد ازاں اپوزیشن ارکان واک آئوٹ کرگئے ۔وزیر اعلی ٰ پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ رات کے اندھیرے میں منتخب حکومت پر شب خون کی کوشش ناکام ہو گئی ، اسمبلیوں کی تحلیل کے عمران خان کے فیصلے پر عمل ہوگا ۔پنجاب اسمبلی کا اجلاس حسب معمول 2 گھنٹے 12 منٹ کی تاخیر سے سپیکر سبطین خان کی زیر صدارت شروع ہوا۔ اجلاس شروع ہوتے ہی گورنر کے اقدام پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہنگامہ آرائی ہوئی۔گورنر پنجاب بلیغ الرحمن کے وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے اقدام پر حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کی ۔ میاں اسلم اقبال نے ایوان میں پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے گورنر پنجاب کے غیر آئینی اقدامات کے خلاف قرارداد پیش کی۔

قرارداد میں کہا گیا پنجاب اسمبلی کاایوان قواعد و ضوابط کے تحت منظور کرتا ہے کہ دستور کے تحت اقتدار اعلیٰ خدائے بزرگ برتر کے لیے مختص ہے جبکہ اختیارات کا سرچشمہ عوام ہیں۔ امپورٹڈ حکومت پنجاب پریلغارکئے ہوئے ہے ،پنجاب اس یلغار کا نشانہ بن رہاہے ۔ اکثریتی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی جا رہی جس کی مذمت کرتے ہیں۔ ضمیر فروشی سے حکومت کو غیر مستحکم کرکے ایوان کے خلاف غیر جمہوری یلغار کا سلسلہ جاری ہے ۔ گورنر نے بائیس دسمبر کو وزیراعلیٰ اور کابینہ کے خلاف اختیارات سے تجاوز کیا اور ایوان کا استحقاق مجروح کیا۔ صدر مملکت سے اس شرمناک اقدام کا نوٹس لینے کی گزارش ہے اور وہ فوری طورپر گورنر کو منصب سے معزول کرنے کااہتمام کریں۔ وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی پر ایوان اعتماد کااظہار اور سپیکر کی رولنگ کی توثیق کرتا ہے ، بعدازاں ایوان نے قرارداد منظور کر لی۔ اجلاس میں بشارت راجہ نے گورنر کے اقدام کے خلاف تحریک استحقاق پیش کی جسے سپیکر نے سپیشل کمیٹی 8 کو بھجوا کر دو ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔اجلاس میں حکومت کے 149 اور اپوزیشن کے 115 ممبران موجود تھے ۔ پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں پرویزالٰہی نے کہا خاتم النبین ؐ یونیورسٹی اور قرآن ایکٹ کا بل پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں ، متفقہ طور پر بل کی منظوری پرسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان، پی ٹی آئی، مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا دشمن جو مرضی کرلے ، یہ حکومت قائم رہے گی۔تمام مخالفین کو ندامت اٹھانا پڑے گی۔ وزیر اعلیٰ نے کہاتمام سرکاری و نجی سکولوں میں ایف اے تک ناظرہ قرآن کریم کی تعلیم لازمی قرار دی گئی ہے اور اس ضمن میں صوبائی وزیر سکول ایجوکیشن مراد راس کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔وزیراعلیٰ نے کہا دین کے دشمن ہمیشہ ناکام رہے ہیں اور رہیں گے ،ہم کسی سے نہیں مانگتے ، صرف اللہ تعالیٰ اور اللہ کے پیارے نبی ؐ سے مانگتے ہیں۔ایجنڈا مکمل ہونے پر اجلاس بر وز سوموار دوپہر 2 بجے تک ملتوی کر دیاگیا۔ دریں اثنائعدالتی فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے پرویز الٰہی نے کہا پنجاب کے عوام کو مبارک ہو عدالت نے گورنر کی آئین شکنی کا راستہ روک دیا،اسمبلیوں کی تحلیل کا فیصلہ حتمی ہے عمران خان کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد ہو گا، صدر سے درخواست کر رہے ہیں کہ گورنر کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی عمل میں لائی جائے ۔ وزیراعلیٰ نے کہا رات کے اندھیرے میں منتخب حکومت پر شب خون کی کوشش ناکام ہوگئی ،امپورٹڈ حکومت کے سلیکٹڈ گورنر نے آرٹیکل 58(2) بی بحال کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا راستہ روک دیا گیا ۔ پرویزالٰہی نے کہا امپورٹڈ حکومت انتخابات سے بھاگنا چاہتی ہے ،ہم اس کو عوام کے کٹہرے میں پیش کریں گے اور حتمی فیصلہ عوام کا ہو گا،گورنر کے خلاف صوبائی اسمبلی کی قرارداد اہمیت کی حامل ہے ،اس قرارداد کی روشنی میں صدر سے درخواست کر رہے ہیں کہ گورنر پنجاب کو فوری طور پر عہدے سے ہٹایا جائے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں