آئی ایم ایف کی بڑھتی شرائط پر حکومتی پسپائی

آئی ایم ایف کی بڑھتی شرائط پر حکومتی پسپائی

(تجزیہ:سلمان غنی) ایک جانب مہنگائی کے 47سالہ ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں تو دوسری جانب آئی ایم ایف اپنی شرائط منوانے پر کاربند ہے اور حکومت اس کے سامنے سرنڈر کرتی جا رہی ہے ،وزیراعظم شہباز شریف یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی ناقابل تصور شرائط پوری کرنی ہیں۔

 جس پر یہ سوالات کھڑے ہو رہے ہیں کہ آخر پاکستان ایسی پسپائی پر کیوں مجبور ہوا۔ آئی ایم ایف سے کئے جانے والے معاہدوں کے وقت کیا حکومتوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ ان شرائط کے اثرات ملکی معیشت اور خصوصاً پہلے سے مسائل زدہ مہنگائی زدہ عوام پر کیا ہوں گے اور وہ کونسی وجوہات ہیں کہ ڈالر خود سر ہوا پھر رہا ہے اور پاکستانی روپے کی بیچارگی دیکھی نہیں جا رہی۔ آئی ایم ایف سے ہونے والے تکنیکی مذاکرات مکمل ہو چکے جس کے تحت بجلی، گیس کا ٹیرف بڑھانے پٹرولیم پر 18فیصد جی ایس ٹی لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ خسارے کے شکار سرکاری اداروں کی نجکاری پر زور دیا گیا ہے ۔ا ب تک کی صورتحال میں حکومت آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکتی نظر آ رہی ہے ان کی شرائط تسلیم کرنے کے بعد 22کروڑ عوام کا کیا حال ہوگا اس بارے تو کسی سطح پر سوچا جا رہا نہ ہی جوابدہی کا احساس موجود ہے ۔ حکمرانوں کواس خطرے اور خدشے کا بھی ادراک نہیں کہ آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط نئے اور بڑے بحران کو جنم دے سکتی ہیں عوام کے اندر لاوا پک رہا ہے ،جنہیں سمجھ نہیں آ رہا بچوں کو روٹی کھلائیں یا تعلیم دلوائیں ، ایسا محسوس ہو رہا ہے عوام کو ہاتھ پاؤں باندھ کر سمندر برد کر دیا گیا ہے ۔

لیکن دوسری طرف بڑی تشویش یہ ہے کہ جنہوں نے صورتحال کے سدباب میں بڑا کردار ادا کرنا تھا ان کے درمیان محاذ آرائی جاری ہے دونوں محاذوں پر عوام کے نام پر کھیل جاری ہے کسی کو پروا نہیں عوام جیتے جی درگور کیوں ہیں۔ایک طرف خزانہ خالی تو دوسری طرف کوئی دن ایسا نہیں گزر رہا کہ نیا وفاقی وزیر نہ بن رہا ہو،یہ رجحان عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا باعث بن رہا ہے ۔اشرافیہ کی شاہ خرچیاں کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں ، اب وقت آ گیا ہے اشرافیہ اور حکمران طبقہ کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے ۔مفت کی بجلی پٹرول اور گیس کا سلسلہ بند کرنا پڑے گا ،ایک دوسرے کے خلاف سکورسیٹل کرنے کا سلسلہ کسی اور وقت کیلئے چھوڑ دیں،ملک کے بڑوں کو سر جوڑنا پڑے گا ،قومی اور سیاسی قیادت کو ایک ایسے صفحے پر آنا ہوگا جہاں ایجنڈا معیشت اور صرف معیشت کی بحالی ہو حکومت اور ریاست کو اپنے اخراجات میں کمی لا کر قوم کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ ہم بھی قربانی کیلئے تیار ہیں لیکن جو حکومت توانائی بحران سے نمٹنے کیلئے با زار جلد بند کرانے کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرا سکتی ہو وہ اداروں پر عوام کا اعتماد کیسے بحال کر پائے گی؟،اب حکمرانوں کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ سیاست بچانی ہے یا ریاست اور اگر واقعتاً حکمران اور اشرافیہ ریاست بچانے میں سنجیدہ ہیں تو پھر قربانی دینے کی باری ان کی ہے ، مسائل زدہ عوام کے پاس گنوانے کیلئے کچھ نہیں رہا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں