جج ذاتی مفادات سے متعلق کیس نہیں سن سکتا،جسٹس فائز کی سربراہی میں انکوائری کمیشن کا سپریم کو رٹ بینچ پر اعتراض

جج  ذاتی  مفادات  سے  متعلق  کیس  نہیں  سن  سکتا،جسٹس  فائز  کی  سربراہی  میں  انکوائری  کمیشن  کا  سپریم  کو رٹ  بینچ  پر  اعتراض

اسلام آباد(سپیشل رپورٹر)سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں آڈیو لیکس پر تحقیقات کیلئے قائم تین رکنی حکومتی کمیشن نے بھی سپریم کورٹ کے 5رکنی بینچ پر اعتراض کردیا اور کہا ذاتی مفادات سے متعلق کیس کوئی جج نہیں سن سکتا۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن ،جسٹس منیب اختر،جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی مختصر سماعت کی اورآڈیو لیکس کمیشن کے خلاف حکم امتناع کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ،چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ اگلے ہفتے بینچ پر اعتراضات کی حکومتی درخواست کو پہلے سنیں گے ،سپریم کورٹ میں آڈیو لیکس کمیشن کے سیکرٹری کے دستخط سے جمع کردہ 12صفحات کے جواب میں چیف جسٹس سمیت مقدمہ سننے والے بینچ کے تین ججوں پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مناسب نہیں کہ موجودہ بینچ آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف دائر درخواستیں سنے ، چیف جسٹس اور جج صاحبان اپنے حلف، آئین اور قانون کے مطابق ذمہ داریاں ا نجام دینے کے پابند ہیں جبکہ چیف جسٹس اور جج صاحبان کوڈآف کنڈکٹ پر عملدرآمد کے بھی پابند ہیں جس کے مطابق ججز کا حلف ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھنے کا کہتا ہے ،کوئی جج ذاتی مفادات سے متعلق کیس نہیں سن سکتا،انکوائری کمیشن کے سامنے چیف جسٹس کی ساس جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر کے حوالے سے آڈیوز ہیں، کمیشن کو آڈیو لیکس کی انکوائری میں کوئی ذاتی دلچسپی نہیں لیکن کمیشن کو یہ ذمہ داری قانون کے تحت دی گئی ہے ، آڈیو لیکس کمیشن آئین و قانون کے مطابق اپنی ذمہ داری پوری کریگا،کمیشن یقین دلاتا ہے کہ متعلقہ فریقین کے اٹھائے گئے اعتراضات کو سن کر ان پر غور کیا جائے گا، صدر سپریم کورٹ بار سمیت دیگر افراد سے متعلق آڈیوز کمیشن کے سامنے تحقیقات کیلئے رکھی گئی ہیں ،صدر بار نے آڈیو لیکس کمیشن کیخلاف درخواست دائر کی ہے لیکن مبینہ آڈیو لیکس کے دیگر افراد نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی نہ ہی کمیشن پر اعتراض اٹھایا، مبینہ لیک آڈیوز کے دو کرداروں صحافی قیوم صدیقی اور خواجہ طارق رحیم کمیشن میں پیش ہونے کیلئے بھی تیار ہیں،آڈیو لیکس کمیشن نے پانچ رکنی بینچ کی تشکیل کے طریقہ کار پر بھی اعتراض کیا ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف دائر درخواستیں قابل سماعت نہیں ، آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کیلئے قانون کے مطابق بینچ تشکیل نہیں دیا گیا ۔

بینچ کی تشکیل کا معاملہ ججز کمیٹی کے سامنے نہیں رکھا گیا، بہتر ہوگا ججزکمیٹی کی جانب سے بینچ کی تشکیل تک 5 رکنی بینچ سماعت مؤخر کردے ، انکوائری کمیشن کو سنے بغیر پانچ رکنی بینچ نے حکم امتناع جاری کیا اور آڈیو لیکس کمیشن کو کام سے روکا ،آڈیو لیکس کمیشن نے آرٹیکل 209 پر اپنا موقف پہلے اجلاس میں واضح کردیا تھا کہ کمیشن کی کارروائی کو سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی نہ سمجھا جائے ،انکوائری کمیشن کسی جج کے خلاف انضباطی کارروائی نہیں کررہا ،نہ یہ کمیشن کا اختیار ہے ، جواب میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف حکم امتناع کا معاملہ بھی اٹھا یاگیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف 6 درخواست گزاروں بشمول خواجہ طارق رحیم نے درخواست داخل کی، رجسٹرار آفس نے اعتراضات لگائے کہ یہ درخواستیں 184/3 کے تحت قابل سماعت نہیں لیکن رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف چیمبر اپیل کی سماعت کیے بغیر مقدمہ 8 رکنی بینچ کے سامنے مقرر کیا گیا، 8 رکنی بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے قانون پرحکم امتناع جاری کردیا،جواب میں آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کا کہنا ہے کہ وہ عوام کا پیسہ بچانے کیلئے اپنا وکیل نہیں کر رہا، درخواست ہے سیکرٹری کے ذریعے کھلی عدالت میں یہ جواب پڑھ کر سنایا جائے ،سماعت کے آغازمیں درخواست گزارریاض حنیف راہی نے بتایا کہ حکم امتناع کے باجود آڈیو لیکس انکوائری کمیشن نے معاملے پر سماعت کی، عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہورہی ہے اس لئے وہ اس معاملے میں توہین عدالت کی درخواست دائر کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا بینچ پر اعتراض اٹھایا گیا ہے لیکن عدالت پہلے ہی بینچ پر اعتراض مسترد کر چکی ہے ، چیف جسٹس نے درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا جو مروجہ طریقہ کار ہے اس کے مطابق درخواست آفس میں دائر کریں،چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کی درخواست پر نمبر لگانے کی ہدایت کی اور کہا بینچ پر اعتراض کی حکومتی درخواست کو نمبر الاٹ نہیں ہوا کیونکہ بینچ پر اعتراضات کی درخواستیں کمرہ عدالت میں دی جاتی ہیں، عدالتی روایت کے مطابق ججز پر اعتراضات کی درخواستیں رجسٹرار آفس نہیں لیتا، ججوں پر اعتراضات بینچ کے سامنے اٹھائے جاتے ہیں،چیف جسٹس نے کہا بینچ پر اعتراضات کی درخواستوں کو آئندہ سماعت پر سن کر فیصلہ کرینگے ، اس مقدمے میں آڈیو لیکس کمیشن کا جواب بھی موصول ہوگیا ہے ،اس موقع پر سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے وکیل شعیب شاہین نے کہا انکوائری کمیشن نے اپنے جواب میں ٹاک شوز کا بھی ذکر کیا ہے ، ٹاک شوز میں ایک سال سے عدلیہ کا دفاع کرنے جاتے ہیں اور وہاں جو گفتگو ہوتی ہے وہ عدالت کے سامنے ہے ، عدالت کے دروازے پر جو زبان استعمال کی گئی وہ ڈھکی چھپی نہیں۔چیف جسٹس نے وکیل شعیب شاہین کو ہدایت کی کمیشن کے جواب پر تحریری موقف جمع کروا دیں، تحریری موقف آئے گا تو جائزہ لینگے ،عدالت نے جمع کروائے گئے جوابات پر درخواست گزاروں سے جواب طلب کرتے ہوئے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کیخلاف درخواستوں پر سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔

اسلام آباد(اپنے نامہ نگارسے )اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت سے جواب طلب کرلیا کہ آڈیو ریکارڈ کون کرتا ہے ؟ جسٹس بابرستار نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کی آڈیو لیکس سے متعلق پارلیمانی تحقیقاتی کمیٹی کے خلاف درخواست میں کمیٹی کو  کارروائی سے روکتے ہوئے فریقین کو جواب کیلئے نوٹس جاری کردئیے اور نجم الثاقب کو جاری سمن بھی معطل کردئیے ، دوران سماعت عدالت نے درخواست پر عائد رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کرتے ہوئے استفسار کیاکہ کیایہ سپیشل کمیٹی ہے ؟ لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے بتایاکہ سپیشل کمیٹی کیلئے بھی وہی رولز ہوں گے جو عام کمیٹی کیلئے ہوتے ہیں، عدالت نے وکیل سے کہا آپ کو متعلقہ وزارت کو پارٹی بنانا پڑے گا، جس پر درخواستگزار وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کوئی متعلقہ وزارت اس معاملہ میں ہے ہی نہیں، پھر بھی ہم بنا دیں گے ،ہم نے صرف یہ چیلنج کیا،سپیکر اور اسمبلی کو پرائیویٹ معاملے کو دیکھنے کا اختیار نہیں ہے ،سپریم کورٹ میں جو معاملہ زیر التوا ہے ہم نے اس کو چیلنج نہیں کیا،آڈیو لیک دو پرائیویٹ لوگوں کے درمیان مبینہ طور کی گئی بات ہے ،پارلیمنٹ کو دو پرائیویٹ لوگوں کے معاملے کو دیکھنے کا اختیار نہیں ہے ،عدالت نے مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ نجم الثاقب کو کیے گئے سمن کو بھی معطل کردیا اور وفاقی حکومت کو جواب کیلئے نوٹس جاری کرتے ہوئے استفسار کیا کہ یہ آڈیو ریکارڈ کون کرتاہے ؟ عدالت نے سماعت19 جون تک ملتوی کردی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں