الیکشن کمیشن مساوی آبادی پر حلقوں کی تشکیل یقینی بنائے :فافن
اسلام آباد(نامہ نگار ،آن لائن ) فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن ) نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک بھر میں مساوی آبادی پر مشتمل انتخابی حلقوں کی تشکیل یقینی بنائے اورحلقہ بندیوں پر اعتراضات کی سماعت اسلام آباد کے بجائے صوبوں کی سطح پر کی جائے ۔
فافن کی جانب سے انتخابی حلقہ بندیوں سے متعلق تجاویز میں کہاگیا ہے کہ الیکشن
ایکٹ کے تحت حلقہ بندیوں کے دوران استثنائی صورتوں میں الیکشن کمیشن پر ضلعی حدود کی پابندی کرنا لازم نہیں ہوگا تا کہ کسی اسمبلی کے حلقوں کے درمیان آبادی کا فرق 10 فیصد سے زیادہ بڑھنے نہ پائے اور مساوی آبادی پر مبنی حلقہ بندیاں یقینی بنانے کے لئے ایسے اقدامات سے انتخابی عمل کو منصفانہ بنانے میں مدد ملے گی۔ تجاویز کے مطابق گزشتہ برس ہونے والی حلقہ بندی میں قومی اسمبلی کے 82 اور صوبائی اسمبلیوں کے 88 حلقے ایسے تھے جن کی آبادی کا متعلقہ اسمبلی کی فی نشست اوسط آبادی سے فرق دس فیصد سے زائد رہا اسی طرح قومی اسمبلی میں فی نشست اوسط آبادی کے دس فیصد سے زائد یا کم آبادی رکھنے والے حلقوں میں سے 34 حلقے پنجاب، 22 خیبرپختونخوا، 23 سندھ اور تین بلوچستان میں تھے ۔اسی طرح صوبائی اسمبلیوں کے ایسے حلقوں میں 30 خیبرپختونخوا، 28 بلوچستان، 18 سندھ اور 12 پنجاب کے حلقے شامل تھے ،قومی اسمبلی کا سب سے بڑاحلقہ بنوں 12لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل تھا جب کہ سب سے چھوٹا حلقہ ٹانک تقریباً سوا چار لاکھ آبادی کے ساتھ اس سے تین گنا چھوٹا تھا۔ اسی طرح بلوچستان اسمبلی کا سب سے بڑا حلقہ قلعہ سیف اللہ تھا جس کی آبادی سب سے چھوٹے حلقے آواران کی آبادی سے تین گنا زیادہ تھی اسی طرح خیبرپختونخوا اسمبلی کا سب سے بڑا حلقہ ٹانک تقریباً سوا چار لاکھ آبادی پر مشتمل تھا جو کہ سب سے چھوٹے حلقے اپر چترال کی تقریباً ایک لاکھ 69 ہزار آبادی سے 2.5 گنا بڑا تھا۔اسی طرح پنجاب اسمبلی کا سب سے بڑا حلقہ خوشاب ٹو چار لاکھ چوالیس ہزار آبادی پر مشتمل تھا جبکہ سب سے چھوٹے حلقے چنیوٹ ون کی آبادی سوا تین لاکھ تھی اسی طرح سندھ اسمبلی کا سب سے بڑا حلقہ نوشہروفیروز کی آبادی چار لاکھ چھتیس ہزار تھی جبکہ سب سے چھوٹا حلقہ جامشورو صرف تین لاکھ 15 ہزار آبادی پر بنا تھا۔ تجاویز کے مطابق الیکشن کمیشن شہریوں کی جانب سے اعتراضات کی باقاعدہ سماعت سے پہلے ان کی ابتدائی جانچ پڑتال کر لیتاکہ صرف جامع اور مدلل اعتراضات ہی باقاعدہ سماعت کے مرحلے تک پہنچیں نیز الیکشن کمیشن کو اعتراضات پر سماعتیں وفاقی دارالحکومت کے بجائے صوبوں میں منعقد کرنی چاہئیں تاکہ اعتراض کنندگان طویل سفر اور اخراجات سے بچ سکیں۔فافن کے مطابق حلقہ بندی کے عمل میں بہتری انتخابات کے عمل کو بہتر بنانے اور منتخب اداروں میں تمام جغرافیائی، لسانی، نسلی اور مذہبی تنوع کی نمائندگی کو یقینی بنانے کے لئے اہم ہے ۔ حلقہ بندی شہریوں کے درمیان سیاسی طاقت کی تقسیم کا ایک مرکزی عمل ہے لہٰذا اسے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف ہونا چا ہئے ،فافن یہ بھی سفارش کرتا ہے کہ حلقہ بندیوں کی ابتدائی تجاویز پر شہریوں کی جانب سے اعتراضات دائر کرنے اور ان کی سماعت کے عمل کو سہل بنانے کے لیے الیکشن رولز 2017 کے قاعدہ 12 اور 13 میں ضروری ترامیم کی جائیں ۔