نگران پنجاب کا بینہ،نواز شریف کی سزا معطل:گرفتاری نہیں چاہتے:نیب آپکا موقف ہے الزام برقرار لیکن نواز شریف کو چھوڑ دیں؟عدالت، مخالفت نہیں کرنی تو ریفرنسز واپس کیوں نہیں لیتے:چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ

نگران پنجاب کا بینہ،نواز شریف کی سزا معطل:گرفتاری نہیں چاہتے:نیب آپکا موقف ہے الزام برقرار  لیکن نواز شریف کو چھوڑ دیں؟عدالت، مخالفت نہیں کرنی تو ریفرنسز واپس کیوں نہیں لیتے:چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ

لاہور(محمد اشفاق سے )نگران پنجاب حکومت نے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں ٹرائل کورٹ کی طرف سے دی گئی 10سال قید کی سزا معطل کردی، نواز شریف نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پنجاب حکومت کو تحریری درخواست دی ، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ یہ مقدمہ سیاسی بنیادوں پر قائم کیا گیا۔

 سزا حقائق کے برعکس ہے ،نواز شریف اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوکر بے گناہی ثابت کرنا چاہتے ہیں ،اسلام آباد ہائیکورٹ نے کریمنل پروسیجرل کوڈ 1898کے سیکشن 401کے تحت پنجاب حکومت سے رجوع کرنے کا کہا تھا لہذا اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں سزا کو معطل کیا جائے ،نگران پنجاب حکومت نے درخواست کو گزشتہ روز سماعت کیلئے مقرر کیا ،نواز شریف کے وکلا اعظم نذیر تارڑ اور امجد پرویز نے اسلام آباد میں ہونے کی وجہ سے ویڈیو لنک پر دلائل دئیے ، نگران پنجاب کابینہ اور چیف سیکرٹری نے وکلا کا موقف سننے کے بعد متفقہ طور پر درخواست منظور کرلی اور نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطل کردی ،واضح رہے کہ 28جولائی 2017 کو پاناما پیپرز سکینڈل میں سپریم کورٹ نے حتمی فیصلہ سناتے ہوئے اپنے فیصلے میں نواز شریف کو نااہل قرار دیا اور شریف خاندان کے خلاف نیب کو تحقیقات کرنے اور احتساب عدالت کو نیب ریفرنسز 6 ماہ میں نمٹانے کا حکم دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن کو نگران جج مقرر کردیا تھا ،جس کے بعد احتساب عدالت نے 6جولائی 2018کونواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں 10سال، مریم نواز کو7سال اور کیپٹن (ر)صفدرکو1سال قید کی سزا سنادی تھی ، اس دوران نوازشریف اپنی اہلیہ کو بیمار چھوڑ کر بیٹی مریم نواز کے ہمراہ گرفتاری دینے کیلئے وطن واپس آئے اور 13جولائی 2018کو ایئر پورٹ سے گرفتار کرکے انہیں جیل منتقل کیا گیا ،19 ستمبر 2018 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے دورکنی بینچ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزائیں معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کاحکم دیا جبکہ 14جنوری 2019کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس گلزار احمد، جسٹس مشیر عالم اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے نیب کی سزا معطلی کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کوخارج کردیا ،دوسری جانب 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں بھی نوازشریف کو7سال قید کی سزا سنائی گئی ، جس کے بعد نواز شریف کو جیل منتقل کردیا گیا تاہم فلیگ شپ ریفرنس میں نوازشریف بری ہوئے ، 31اکتوبر 2019کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے دورکنی بینچ نے العزیزیہ ریفرنس میں میڈیکل گرائونڈز پر نواز شریف کی دونوں کیسز میں سزائیں معطل کرکے بیرون ملک علاج کی اجازت دی اور ساتھ فیصلے میں لکھ دیا کہ اگر نوازشریف کی صحت بہتر نہ ہو تو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 401کے تحت درخواست گزار پنجاب حکومت سے ضمانت توسیع کرواسکتے ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ سے سزائیں معطل ہونے کے بعد نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کیلئے لاہورہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا، جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دورکنی بینچ نے میڈیکل گرائونڈز پر 16نومبر2019کو نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست منظور کی اور انہیں بیرون ملک علاج کی اجازت دیدی ،اس حوالے سے ان کے بھائی شہباز شریف نے عدالت میں سٹامپ پیپر پر گارنٹی دی ، نومبر 2019کو نوازشریف لندن پہنچ گئے اور اس دوران صرف ایک مرتبہ لاہورہائیکورٹ میں نواز شریف کا کیس 20جنوری 2020کو جسٹس طارق عباسی اور جسٹس چودھری مشتاق پر مشتمل بینچ کے روبرو سماعت کیلئے مقرر ہوا تو ایک ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور اسد باجوہ سمیت دو ڈپٹی اٹارنی جنرل نوازشریف کے خلاف پیش ہوئے لیکن عدالت کے سوالات کے جوابات نہ دے سکے اور مزید مہلت مانگ لی ، جس کے بعد کیس غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا،اس دوران تحریک انصاف کی حکومت نواز شریف کو مفرور تو قرار دیتی رہی لیکن نواز شریف کی ضمانت خارج کروانے کیلئے کوئی درخواست عدالت میں دائر نہیں کی جبکہ دوسری جانب 4ہفتوں بعد نواز شریف جب وطن واپس نہ آئے تو اسلام آباد ہائیکورٹ نے عدم پیروی کی بنیاد پر نواز شریف کی ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف دونوں اپیلیں خارج کردیں اور نواز شریف کو اشتہاری قرار دیا اور فیصلے میں کہاکہ نوازشریف واپس آئیں تو اپیلیں بحال کرنے کی درخواست دے سکتے ہیں جس کے بعد نواز شریف 21اکتوبر کو ملک واپس پہنچے تو اپیلیں بحال کرنے کی درخواستیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کروادی گئیں جبکہ العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی کی درخواست پنجاب حکومت کو دی ، سزا معطل ہونے سے نواز شریف کی گرفتاری کا خطرہ ٹل گیا جبکہ نااہلی کی تلوار اس وقت تک لٹکتی رہے گی جب تک اسلام آباد ہائیکورٹ نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کے خلاف اپیلوں کا فیصلہ ان کے حق میں نہیں کر دیتی ۔

اسلام آباد(اپنے نامہ نگارسے )قائد مسلم لیگ ن نواز شریف احتساب عدالت اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوگئے ، عدالت نے توشہ خانہ کیس میں دائمی وارنٹ منسوخ کرتے ہوئے ضمانت منظور کرلی جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزائوں کیخلاف اپیلوں کی بحالی پر نیب سے کل جواب طلب کرلیااور ضمانت میں بھی توسیع کردی،اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت کے موقع پر نواز شریف اپنے وکلااعظم نذیر تارڑ، امجد پروپز اور دیگرکے ہمراہ پیش ہوئے ،اس موقع پر شہباز شریف، اسحاق ڈار، خواجہ آصف، عطا تارڑ، پرویز رشید، عابد شیر علی،چودھری تنویر،حنیف عباسی، مریم اورنگزیب، حنا بٹ، ناصر بٹ، سعد رفیق، احسن اقبال اور دیگربھی کمرا عدالت میں موجود تھے ، پارٹی قائدین کی عدالت آمد کے موقع پر سخت دھکم پیل ہوئی، سکیورٹی حکام کو سکیننگ کیلئے کمرا عدالت کو خالی کرانے میں سخت مشکلات کا سامنا کرناپڑا، بار بار کی درخواست کے باوجود کمرا عدالت خالی نہ ہونے پر عدالتی عملہ نے لیگی رہنماؤں کی مدد سے کمرا عدالت کو خالی کرایا جس کے بعد بم ڈسپوزل سکواڈ نے کمرا عدالت کی سکیننگ کی، نواز شریف کی آمد کے ساتھ وکلا اور لیگی رہنما بھی بھاری تعداد میں کمرا عدالت میں داخل ہوگئے ،نواز شریف کے کمرا عدالت میں پہنچنے کے بعد وکلا اور لیگی کارکنان نواز شریف کے ساتھ سیلفیاں بناتے رہے ،صحافیوں کی جانب سے الیکشن میں حصہ لینے سے متعلق سوال پر نواز شریف مسکرادئیے جبکہ ملٹری کورٹس سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ سے متعلق سوال پر بھی نواز شریف نے جواب نہ دیا اور ججز کی کرسیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ کورٹ آ رہی ہے ،بعد ازاں سماعت شروع ہونے پر اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ ایک انفارمیشن بتانی ہے ،احتساب عدالت نے اشتہاری قرار دینے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے ، وارنٹ بھی ختم ہو گئے ، چیف جسٹس نے کہاکہ اپیل کا کیا ہے آج، اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ آسان الفاظ میں یہ اپیلیں بحال کرنے کی درخواستیں ہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ ابھی ہم نے اس پر نوٹس جاری کر کے نیب کو سننا ہے ،اپیلوں کی بحالی روٹین کا معاملہ نہیں، آپ نے مطمئن کرنا ہے کہ آپ عدالت سے غیر حاضر کیوں رہے ؟، پہلے درخواستوں سے متعلق بتائیں ،اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ عدالت ہماری اپیلیں بحال کرنے کی درخواستیں پہلے سنے ، چیف جسٹس نے کہاکہ اگر ہم آپ کے دلائل سے مطمئن نہ ہوئے تو پھر ،اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ میں دلائل دوں گا عدالت کو مطمئن کروں گا،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ ہم نے آپ کی درخواستیں پڑھی ہیں۔

جب ڈیکلریشن اس قسم کا دیا جائے تو کیا وہ پھر کہہ سکتا ہے اپیلیں بحال کریں؟ نواز شریف نے جسٹیفائی کرنا ہے کہ کیوں وہ اشتہاری ہوئے ؟چیف جسٹس نے کہاکہ وہ عدالت کیوں پیش نہیں ہوتے رہے ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ ایک بات آپ کو کلیئر کر دوں آپ لا کے مطابق جائیں گے ، اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ آئین کا آرٹیکل 10 اے سے پہلے کی صورت حال مختلف تھی ،چیف جسٹس نے کہاکہ آرٹیکل 10 اے میں حیات بخش کیس کا فیصلہ بھی ہے ، اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ نواز شریف جان بوجھ کر غیر حاضر نہیں رہے ،نواز شریف عدالت کی اجازت سے بیرون ملک گئے ،ہم عدالت میں میڈیکل رپورٹس پیش کرتے رہے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ یہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا تھا اور دوسری عدالت چلے گئے ، نواز شریف کی حراست اس عدالت کے انڈر تھی آپ دوسری عدالت گئے ؟اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ دوسری عدالت سے ریلیف سے متعلق ہم نے اس عدالت کو آگاہ کیا تھا، ہم فوجداری کیس میں کھڑے ہیں اس میں حقوق کی بات اہم ہے ،ہمارے حفاظتی ضمانت کے آرڈر میں کچھ روز کی توسیع کردیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کمرا عدالت میں موجود پراسیکیوٹر جنرل نیب سے استفسار کیا کہ آپ کا کیا موقف ہے ؟، جس پر پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ حفاظتی ضمانت میں توسیع پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیاکہ کیا یہ وہی نیب ہے ؟ نیب تو آج بغیر نوٹس کے پیش ہو گیا ہے ،یہ تو اکثر نوٹس دیں تو نہیں آتے ،اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ ہم نے ان کو درخواست کی ایڈوانس کاپی دی تھی،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ خواجہ حارث ٹرانسفر کی درخواست پر دلائل دے رہے تھے ،آپ کو پتا ہے عام عوام کا کتنا وقت اس کیس میں لگا؟،بڑا آسان ہے کہ عدالت میں الزام لگایا جائے ، اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ ایون فیلڈ ریفرنس میں کیا ہوا سب کے سامنے ہے ،ایک پہاڑ کھودا گیا اور اس میں سے کیا نکلا؟جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیاکہ کیا چیئرمین نیب پاکستان میں ہیں؟ جس پر پراسیکیوٹر جنرل نے بتایاکہ چیئرمین نیب پاکستان میں ہی ہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ ہمارے سامنے دو اپیلیں زیر سماعت ہیں، نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ میں عدالت کی مکمل معاونت کروں گا،عدالت نے استفسار کیاکہ کیا آپ نواز شریف کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں؟، نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ میں کلیئر ہوں ابھی عدالت کے سامنے حفاظتی ضمانت کا معاملہ ہے ،اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ کسی کو نقصان نہیں جیل جانے کی صورت میں نواز شریف کا نقصان ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ میں ان کیسز میں پانچ سال بعد واپس آیا ہوں،پانچ سال بعد سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کیا یہ وہی نیب ہے ،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پراسیکیوٹر جنرل نیب سے کہاکہ ہمارا ٹائم اور کیوں ضائع کرتے ہیں،کیا اب نیب یہ کہے گی کہ کرپٹ پریکٹسز کا الزام برقرار ہے اور ان کو چھوڑ دیں،چیئرمین کے سامنے معاملہ رکھیں پھر کیوں عدالت کا وقت ضائع کیا،اگر یہ کیسز غلط دائر ہوئے ہیں تو پھر نیب کو کیس واپس لینا چاہئے تو کیسے لے گا، اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ ہمارا قتل تو ہوچکا ہے ،ہائے اس زود پشیمان کا پشیماں ہونا،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ نیب آئندہ سماعت تک واضح پوزیشن سے متعلق بتائے ،ہم چیئرمین نیب سے پوچھ لیتے ہیں کہ آپ پبلک ٹائم کیوں ضائع کر رہے ہیں، یہ آپ کے ادارے کیلئے بہت بہت برا ہے ،اگر آپ چاہتے ہیں تو کل سربمہر لفافے میں ہمیں اپنے موقف سے آگاہ کردیں،چیف جسٹس نے کہاکہ اگر مخالفت نہیں کرنی تو ریفرنسز واپس ہی کیوں نہیں لے لیتے ؟، اعظم نذیر تارڑ نے مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے دئیے اور کہاکہ مائی لارڈ تھوڑا زیادہ وقت دیجیے گا، چیف جسٹس نے کہا کہ معاملے کو لٹکائیں نہ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ دوبارہ پوچھ رہے ہیں کیا گرفتار کرنا چاہتے ہیں؟، جس پر نیب حکام نے کہاکہ نواز شریف کی گرفتاری نہیں چاہئے ،عدالت نے کہا کہ نواز شریف کی ضمانت میں توسیع پر کوئی اعتراض ہے ؟، جس پر نیب حکام نے کہاکہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں، عدالت نے نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کرتے ہوئے نواز شریف کی اپیلیں بحال کرنے کی درخواستوں پر نیب کو نوٹس جاری کردیا اور سماعت کل جمعرات26 اکتوبر تک کیلئے ملتوی کردی،قبل ازیں نواز شریف توشہ خانہ ریفرنس میں احتساب عدالت کے ایڈمنسٹریٹوجج محمد بشیر کی عدالت میں پیش ہوئے ، اس موقع پر سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی بھی عدالت پیش ہوئے ، عدالت نے حاضری لگانے کے بعد یوسف رضاگیلانی کو واپس جانے کی اجازت دے دی جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے آصف زرداری کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی جسے عدالت نے منظور کرلیا، دوران سماعت نواز شریف کے وکیل قاضی مصباح کی جانب سے توشہ خانہ ریفرنس میں نواز شریف کی ضبط جائیداد کی بحالی، کیس میں پلیڈر مقرر کرنے اور ضمانتی مچلکے جمع کرانے کیلئے تین الگ الگ درخواستیں دائر کی گئیں، لیگی وکلا نے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہاکہ باقی روٹین کیسز سن لیں، ہمیں وقت دیاجائے ، جس پر عدالت نے نواز شریف کی عدالت پیشی تک سماعت میں وقفہ کردیا،اس دوران لیگی رہنماسینیٹر افنان، ناصربٹ، نہال ہاشمی،احسن اقبال،چودھری تنویر، حنیف عباسی، مائزہ حمید، ملک ابرار، طارق فضل ، کھیل داس، ایاز صادق اور دیگر بھی جوڈیشل کمپلیکس پہنچ گئے ،جوڈیشل کمپلیکس میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے۔

غیر متعلقہ افراد کے داخلہ پر مکمل پابندی عائد کردی گئی جبکہ کمپلیکس کے باہر کارکنوں کی کثیر تعداد جمع ہوگئی جنہوں نے نواز شریف کے حق میں نعرے بازی کی، بعد ازاں سماعت شروع ہونے پر نواز شریف عدالت پیش ہوگئے ،اس سے قبل کمرا عدالت کوخالی کراکربم ڈسپوزل سکوارڈ نے کلیئر کیا،نواز شریف کے کمرا عدالت پہنچنے پر رش کے باعث سخت دھکم پیل ہوئی جس سے کئی خواتین گرگئیں جس کے دوران پولیس اہلکاروں سے تلخ کلامی بھی ہوئی،نواز شریف کے ہمراہ خواجہ آصف، امجد پرویز ، اعظم نذیر تارڑ، اسحاق ڈار اور دیگر بھی عدالت پیش ہوئے ،کمرا عدالت پہنچنے پر نواز شریف کرسی پر بیٹھ گئے سماعت شروع ہونے پر عدالت کے جج نے کہاکہ ابھی دستخط کروالیں، جس پر اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ باہر سڑکیں بند ہیں، عوام ہی عوام ہیں،عدالت نے حاضری کیلئے نواز شریف کو روسٹرم پر بلا لیا،عدالت نے نواز شریف کی حاضری لگائی اور وکلا کو اشارہ کیا کہ نواز شریف کو لے جائیں، جس کے بعد نواز شریف کمرا عدالت سے واپس روانہ ہوگئے ، نیب پراسیکیوٹر سہیل عارف نے کہاکہ نواز شریف نے سرنڈر کر دیا، ان کے وارنٹ مسترد کر دیں، وارنٹ مسترد ہوں گے تو ٹرائل آگے چلے گا،عدالت نے 10 لاکھ روپے مچلکوں پرنواز شریف کی ضمانت منظور کرلی،دوران سماعت وکیل نے کہاکہ پلیڈر کی درخواست دائر کی ہے ، عدالت نے استفسار کیاکہ اس پر آج ہی سماعت کرنی ہے ؟،جس پر وکیل نے کہاکہ جی آج ہی سماعت کی استدعا ہے ،عدالت نے استفسار کیاکہ پلیڈر کون ہے ،جس پر وکیل نے کہاکہ وکیل رانا محمد عرفان پلیڈر ہیں جو عدالت میں موجود ہیں،جب آپ حکم کرینگے نوازشریف کمرا عدالت میں پیش ہو جائیں گے ، جج محمد بشیر نے کہاکہ ویسے بہت مزا آتا ہے جب کافی لوگ جمع ہوتے ہیں، وکیل صفائی قاضی مصباح نے کہاکہ لوگ کسی ایسے کے پیچھے اکٹھے نہیں ہوتے جن پر انہیں اعتماد نہ ہو،اس موقع پر عدالت کے جج نے کہاکہ بس اب بس، اب آپ سیاسی بات کر رہے ہیں، جج محمد بشیر کے جملے پرکمرا عدالت میں قہقہہ لگ گیا، عدالت نے کہاکہ آئندہ سماعت پر نقول تقسیم کی جائیں گی،عدالت نے ضبط کی گئی جائیداد کی بحالی کیلئے درخواست پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا اور سماعت20 نومبر تک کیلئے ملتوی کردی،ادھر ڈاکٹر طارق فضل چودھری نے نواز شریف کے ضمانتی مچلکے بھی جمع کرادئیے ، عدالت نے نواز شریف کی ضمانت منظوری کا 4صفحات پر تحریری حکم بھی جاری کردیا، عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ وارنٹ کا مقصد عدالت حاضری تھا جو مکمل ہوگیا،نیب کے بیان اور دلائل کی روشنی میں نوازشریف کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کئے جاتے ہیں،حاضری سے استثنیٰ کیلئے رانامحمدعرفان کو نوازشریف کے پلیڈر مقرر کرنے کی درخواست بھی دائر کی گئی جو منظور کی جاتی ہے ،نوازشریف کی جانب سے راناعرفان ہر عدالتی پیشی پر حاضر ہو سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں