اسماعیل ہنیہ کی شہادت ، حکومت اور اپوزیشن کا فلسطینی کازپراتفاق

اسماعیل ہنیہ کی شہادت ، حکومت اور اپوزیشن کا فلسطینی کازپراتفاق

(تجزیہ: سلمان غنی) عظیم فلسطینی لیڈر اسماعیل ہنیہ کی ایرانی سرزمین پر شہادت کے عمل نے عالم اسلام میں تشویش کی لہر پیدا کردی ہے ۔حکمران، سیاستدان، عوام اور مختلف طبقات کے نمائندے اپنے اپنے حلقہ میں اس شہادت پر جہاں شدید ردعمل ظاہر کرتے نظر آر ہے ہیں وہاں وہ فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں ۔

 بظاہر دنیائے عالم کے دوہرے اور مجرمانہ کردار کی مذمت کرتے بھی نظر آرہے ہیں۔اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر جمعہ کے روز پاکستان میں منایا جانے والا یوم سوگ اس امر کا اظہار ہے کہ پاکستانی فلسطینی لیڈر کی شہادت پر رنج وغم کے اظہار کیساتھ فلسطین کی عظیم کاز کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں قومی  اسمبلی میں اس حوالہ سے منظور کی جانے والی قرارداد میں اسماعیل ہنیہ کے قتل کیخلاف مذمت کے اظہار کیساتھ فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ لہٰذا اس امر کا تجزیہ لازم ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے اثرات عالم اسلام اور فلسطین کاز پر کیا ہونگے ۔جہاں تک پاکستان پر اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے اثرات کا تعلق ہے تو پاکستان میں حکومت ، سیاسی جماعتوں اور مختلف طبقات سمیت عوام میں کوئی ہوگا ، جس نے اس سانحہ کو محسوس نہ کیا ہو۔ یہ سوال ابھی باشعور لوگوں کے ذہنوں میں ضرور موجود ہے کہ آخر کیا خارجہ آفس پاکستان کا خارجہ آفس ہی ہے ۔ البتہ پاکستان کی جانب سے حکومتی ،سیاسی اور مذہبی حلقہ فکر کی جانب سے اسماعیل ہنیہ کی شہاد ت پر آنے والے ردعمل پر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی فلسطین کاز سے ایک جذباتی وابستگی ہے اور وہ کسی طور پر اس پر پسپائی اختیار کرنے کیلئے تیار نہیں ۔

جہاں وزیر اعظم اور ان کے اتحادیوں کی تقاریر اپوزیشن بینچوں نے بھی سنی اور تالیا ں بجاتے نظر آئے ، ایسا ہی چینج خود اپوزیشن بینچوں سے ہونے والی تقاریر پر حکومتی بینچوں پر بھی دیکھنے میں آیا۔جس بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ تمام تر تناؤ اور ٹکراؤ کے باوجود کم ازکم فلسطین کاز پر سیاسی محاذ میں بھی اتفاق رائے موجود ہے ۔جس کے اچھے اثرات ملکی وغیر ملکی محاذ پر ضرور ظاہرہونگے اور پاکستان میں سامنے آنے والے ردعمل کو محسوس کیا جائے گا ۔ جہاں تک اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا دنیا اور خصوصاً مشرق وسطیٰ پر اثرات کا تعلق ہے ، بلا شبہ ہنیہ کی ہلاکت ایک اشتعال انگیز کارروائی ہے اور اس سے مشرق وسطیٰ جو پہلے ہی سلگ رہا تھا انگارہ بن سکتا ہے اور پھر کسی کی سلامتی کی گارنٹی نہیں دی جاسکے گی۔غزہ کے حالیہ تنازع میں اب تک اسماعیل ہنیہ کے تین بیٹے اسرائیل فضائی حملہ میں شہادت پاچکے ہیں لیکن انہوں نے اپنے بیٹوں کی شہادت کا غم انتہائی صبر اور حوصلے سے برداشت کیا اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔اسی بنا پر ان کا شمار انتہا پسند لیڈر کی بجائے اعتدال پسند رہنما کے طور پر ہوتا تھا لہٰذا اب محسوس ہورہا ہے کہ حماس پر ان عناصر کا غلبہ بڑھے گا جو طاقت کیخلاف طاقت استعمال کرتے ہیں اور اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا بدلہ حماس لے گا ۔کب لے گا کیسے لے گا اس پر کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں