"KMK" (space) message & send to 7575

مالِ مفت دلِ بے رحم

عامر محمود کہنے لگا‘ آپ کا تعلق نہ صرف یہ کہ ملتان سے ہے بلکہ آپ کے بارے میں بہت لوگوں کا خیال ہے کہ آپ کو خصوصی طور پر ملتان اور عمومی طور پر جنوبی پنجاب کی سیاست اور سیاسی گھرانوں کے بارے میں خاصا علم ہے‘ اس لیے آپ سے ایک بات پوچھنی ہے۔ میں نے مسکرا کر کہا کہ میرے بارے میں آپ کا فرمانا صرف اور صرف حسنِ ظن ہے وگرنہ من آنم کہ من دانم۔ ہاں! البتہ میرے دوست باخبر بھی ہیں اور بااعتبار بھی۔ اس لیے ان سے پوچھتا اور سیکھتا رہتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ حاصل شدہ معلومات میں ڈنڈی نہ ماروں۔ ذاتی پسند اور ناپسند کو بالائے طاق رکھوں اور حتی الامکان حد تک بے مروت ہو کر لکھ دوں۔
عامر پوچھنے لگا کہ گزشتہ روز سے آپ کے ''گرائیں‘‘ سید یوسف رضا گیلانی کے دورۂ برطانیہ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جو چیز گردش کر رہی ہے کہ وہ برطانیہ کے سرکاری دورے پر جاتے ہوئے دو عدد سینیٹرز کے علاوہ دو عدد ایم این ایز کو بھی اپنے ساتھ اس دورے پر لے گئے ہیں اور یہ دونوں ایم این ایز ان کے اپنے ہی بیٹے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ سوشل میڈیا میں جھوٹ کی اتنی ملاوٹ ہو چکی ہے کہ اصل اور نقل کی پہچان ختم نہ بھی ہو تو مشکل تر ضرور ہو چکی ہے‘ اس لیے آپ کو ملتان کی سیاست اور سیاسی حالات کا شناور جان کر آپ سے تصدیق چاہتا ہوں کہ یہ واقعی درست ہے یا دیگر بہت سی سوشل میڈیائی خبروں کی طرح خود ساختہ ہے؟
میں نے کہا کہ اب آپ نے پوچھ لیا ہے تو بتائے بغیر چارہ نہیں‘ وگرنہ میں نے اب ایسی خبروں کو خبریں سمجھنا چھوڑ دیا ہے کہ اب یہ روٹین کی باتیں ہیں اور روٹین کی بات خبر نہیں رہتی۔ سید عامر محمود نے میری بات درمیان میں ٹوکتے ہوئے پہلے تو مجھ سے معذرت کی پھر کہنے لگا کہ ایک بات میں بھول گیا۔ خبر یہ بھی تھی کہ مبینہ طور پر انہوں نے برطانیہ کا یہ دورہ Manageکیا ہے یعنی انہوں نے اس سرکاری دورے کا باقاعدہ بندوبست کیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ اس بات سے تمہاری کیا مراد ہے؟ عامر کہنے لگا کہ شنید ہے کہ ان کے کسی بھتیجے یا بھانجے کی برطانیہ میں گریجوایشن تھی اور وہ اس میں بمعہ برخورداران سرکاری خرچے پر شرکت کر رہے ہیں۔ اور ہاں! ایک سوال اور‘ وہ یہ کہ گیلانی صاحب ماشاء اللہ اس قسم کے اخراجات آسانی سے نہ صرف برداشت کر سکتے ہیں بلکہ اتنا خرچہ ان کے لیے کوئی معنی ہی نہیں رکھتا تو آخر وہ اس قسم کے ذاتی نوعیت کے سفر کو سرکار کے کھاتے میں ڈال کر مفت کی بدنامی کس لیے سمیٹ رہے ہیں؟ سوشل میڈیا کے زمانے میں بھلا اس قسم کی چیزیں چھپی رہ سکتی ہیں؟
میں نے کہا :عامر میاں! تم مجھ بزرگ کی یادداشت کا کس لیے امتحان لے رہے ہو اور اتنے سارے سوالات یکشمت پوچھ رہے ہو؟ اب مجھے دوبارہ ترتیب سے یاد کرواؤ تاکہ میں تمہارے سارے سوالات کا ممکنہ حد تک اپنی معلومات کے مطابق جواب دے سکوں۔ بلکہ چھوڑو! میں اپنی سہولت اور یادداشت کے مطابق تمہارے سارے سوالات کا جواب دیتا ہوں۔ پہلا یہ کہ وہ اپنے دو ایم این ایز بیٹوں عبدالقادر گیلانی اور علی قاسم گیلانی کو اپنے ساتھ اس سرکاری دورے پر لے کر گئے ہیں۔ عبدالقادر گیلانی ملتان کے حلقہ این اے 152سے کامیاب ہوئے ہیں جبکہ علی قاسم حلقہ این اے 148کے ضمنی الیکشن میں جیت کر ایم این اے بنے ہیں۔ جنرل الیکشن میں یہ سیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے مخالف امیدوار کے ہزاروں ووٹ کینسل ہونے پر جیتی تھی اور سینیٹر بن کر یہ سیٹ چھوڑ دی تھی جس پر ان کے کسی اسمبلی کی رکنیت سے بچے ہوئے واحد بیٹے علی قاسم گیلانی الیکشن لڑے اور جیت کر قومی اسمبلی میں پہنچ گئے۔ اس سے پہلے ان کے چار میں سے دو بیٹے ایم این اے اور ایک بیٹا صوبائی اسمبلی کا رکن بن چکا تھا۔ یہ اکلوتا بے روزگار بچا تھا جسے ضمنی الیکشن میں اس بے روزگاری سے نجات مل گئی۔
عامر نے پوچھا :یہ خبر پکی ہے؟ میں نے کہا :اتنی پکی ہے کہ جتنی بھٹے کی اینٹ ہوتی ہے۔ البتہ اس بات کی تصدیق یا تردید نہیں کروں گا کہ وہ اس سرکاری دورے کے بہانے اپنے کسی بھانجے یا بھتیجے کی گریجوایشن میں شرکت کے لیے برطانیہ گئے ہیں۔ لیکن آپ کو ایک خبر اور دے رہا ہوں کہ اس دورے کے پیچھے کسی بھانجے یا بھتیجے کی گریجوایشن ہو یا نہ ہو‘ البتہ سنا ہے کہ ان کے ساتھ اس سرکاری دورے میں ان کا ایک بھتیجا بھی اس سرکاری وفد کا حصہ ہے۔ ان کے چھوٹے بھائی مجتبیٰ گیلانی کا بیٹا سید زین گیلانی‘ جو سینیٹ میں ڈپٹی سیکرٹری ہے‘ مبینہ طور پراپنے چچا کے ساتھ وفد کا حصہ ہے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ اس سرکاری وفد میں جو دو ایم این ایز ہیں وہ ان کے سگے بیٹے ہیں اور بطور چیئرمین سینیٹ ان کے ساتھ سینیٹ آف پاکستان کا جو افسر برطانیہ جا رہا ہے وہ ان کا سگا بھتیجا ہے۔
رہ گئی بات تمہارے آخری سوال کی کہ آخر اس بدنامیوں کے موسم میں یوسف رضا گیلانی کو کیا پڑی تھی کہ وہ اپنے ساتھ جانے والے سرکاری وفد میں اپنے دو بیٹے اور ایک بھتیجا ڈال کر لے گئے ہیں جبکہ وہ یہ خرچہ پلے سے کرنے کے قابل بھی ہیں تو تمہیں ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں۔ اس کا راوی بڑا مستند اور ثقہ ہے۔ سندھ میں مٹھی کے قریب ایک مخدوم جیپ پر جا رہے تھے کہ دور سے ان کا ایک مرید ہاتھ ہلاتا ہوا بھاگا چلا آ رہا تھا۔ مخدوم صاحب نے جونہی دور سے آتے ہوئے اپنے مرید کو دیکھا تو ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی روک لو۔ گاڑی رک گئی اور ہانپتا کانپتا‘ پسینے سے شرابور‘ میلی شلوار‘ پھٹی ہوئی بنیان اور پاؤں سے ننگا وہ مرید قریب آ گیا۔ اس نے پہلے مرشد کے پاؤں چھوئے۔ راوی بتاتا ہے کہ رقیق القلب مرشد نے اپنے مرید کو مزید شفقت سے بچانے کیلئے اپنے پاؤں اس کی طرف بڑھا دیے۔ پھر مرید نے ان کے ہاتھ چومے اور اپنی پھٹی ہوئی بنیان کے ساتھ سلی ہوئی جیب سے ایک مڑا تڑا اور پسینے سے بھرا ہوا خستہ حال سو روپے کا نوٹ نکالا اور انتہائی ادب سے اپنے مرشد کی خدمت میں پیش کر دیا۔ بوسکی کی قمیض اور شلوار میں ملبوس مرشد نے وہ نوٹ پکڑ کر اپنی جیب میں ڈالا‘ مرید کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ڈرائیور کو چلنے کا اشارہ کیا۔ کوئی بے درد سے بے درد شخص بھی اس مفلوک الحال مرید سے سو روپے لینے کا تصور نہیں کر سکتا تھا مگر مرشد نے وہ سو روپے بھی جیب میں ڈال لئے۔ جن گدی نشینوں کو اس قسم کے مریدوں سے پیسے لینے میں عار نہ ہو ان کے سامنے سرکاری خزانے کی رقم کی کیا حیثیت ہے؟
عامر پوچھنے لگا :وہ مخدوم کون تھا؟ میں نے کہا: رہنے دو۔ زیر عتاب لوگوں کے نام لینا مناسب نہیں ہے۔ مقصد تمہیں اس ذہنیت سے آگاہ کرنا تھا نہ کہ کسی کا نام لینا۔ تم فی الحال اسی تمثیل سے اس کلاس کے مائنڈ سیٹ کا اندازہ لگا لو۔ جنہیں مریدوں سے عادت پڑ جائے وہ خرچہ کرنا بھول جاتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں