سپریم کورٹ کیخلاف پراپیگنڈا،190ملین پاؤنڈز والوں سے کوئی نہیں پوچھتا:چیف جسٹس

سپریم کورٹ کیخلاف پراپیگنڈا،190ملین پاؤنڈز والوں سے کوئی نہیں پوچھتا:چیف جسٹس

اسلام آباد (نمائندہ دنیا )سپریم کورٹ نے مونال ریسٹورنٹ کے مالک لقمان علی افضل کوتوہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا جبکہ سیکرٹری کابینہ اورسیکرٹری موسمیاتی تبدیلی کوتوہین عدالت کے جاری کیے گئے نوٹس واپس لے لیے گئے ۔

عدالتی حکمنامے میں قرار دیا گیا ہے کہ وزیراعظم آفس کی بے توقیری نہیں ہونی چاہیے ،وزیراعظم آفس کودیکھنا چاہیے کہ تجاویز عوامی مفاد میں ہیں یا ذاتی مفاد میں ہیں ۔دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے مارگلہ ہلز سے متعلق حکم کے بعد سپریم کورٹ کے خلاف پراپیگنڈا شروع ہوگیا، فریقین کی رضامندی سے حکم جاری ہوا پھر یہ پراپیگنڈا کون کر رہا ہے ؟ عدالتی فیصلوں پر تنقید کریں لیکن پراپیگنڈا نہ کریں،جھوٹ بولنا شروع کر دیا جاتا ہے ،کہا جاتا ہے ہمیں یہ خبر آئی ہے ، ارے بھائی کہاں سے خبر آئی،جھوٹ بولتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی،بس بہت ہو گیا ہے ،دنیا میں اگر کہیں اور ایسا جھوٹ کا کاروبار ہوتا تو لوگوں کی جیبیں خالی ہو جاتیں،ہم نے بہت تحمل کا مظاہرہ کیا اب نہیں کریں گے ،اگر ہم نے کچھ غلط کیا تو عدالت میں کھڑے ہو کر بتائیں ہم نے کیا غلط کیا،ایسا نہ ہو ہمیں کوئی سخت حکم دینا پڑے ،ہم نے بہت برداشت کر لیا،اب برداشت نہیں کریں گے ،آئینی اداروں کا احترام ہونا چاہیے ، دوران سماعت 190 ملین پاؤنڈز کیس کا تذکرہ بھی ہوا،چیف جسٹس نے کہاعوام کے 190 ملین پاؤنڈز کسی اور کو دے دیئے گئے ،ایک تو چوری کرو پھر حکومت بھی اس چوری پر پردہ ڈال دیتی ہے ،ان 190 ملین پاؤنڈز والوں سے کوئی کیوں نہیں پوچھتا،اس وقت کی حکومت نے برطانیہ سے ملنے والے پیسے طاقتور شخص کو دے دیئے ،برطانوی حکومت نے پیسے واپس بھجوائے مگر اسی چوری کرنے والے شخص کو واپس کر دیئے گئے ،شکر ہے کہ بیرون ممالک کی ایسی ایجنسیاں ہیں جو فعال ہیں،عدالت نے ڈائینو ویلی اور پائن سٹی سے متعلق خیبرپختوا حکومت سے تفصیلات طلب کر لیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل دو رکنی بینچ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک اور چیئرمین وائلڈ لائف بورڈ کو ہٹانے سے متعلق کیس کی سماعت کی ۔

چیف جسٹس نے سیکرٹری کابینہ کامران علی افضل پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیوں نہ آپ پر فرد جرم عائد کریں؟ سچ بتائیں چیئرمین وائلڈ لائف بورڈ کے نوٹی فکیشن کے پیچھے کون ہے ؟ سیکرٹری کابینہ نے جواب دیا کہ چیئرمین وائلڈ لائف کی تبدیلی کے احکامات وزیر اعظم نے جاری کیے ہیں،چیف جسٹس نے کہا سیکرٹری کابینہ نے بھائی کو بچانے کے لیے الزام وزیر اعظم پر عائد کردیا، انہوں نے وزیر اعظم کو بس کے نیچے دھکا دے دیا ہے ،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریمارکس دیئے چیف جسٹس کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینی ہوں تو آزادی اظہار رائے آجاتی ہے ، ہمارے پاس کوئی میڈیا ٹیم نہیں جو دفاع کر سکے ،ملک اب لینڈ مافیا کے حوالے ہے ، یہاں ہر ایک کا اپنا ایجنڈا ہے ، سپریم کورٹ پر سب سے پہلے ہم نے انگلی اٹھائی تھی، 10،10 سال سے خلاف قانون بیٹھنے والوں کو واپس بھیجا، جس پر بھی شور مچا، کہا گیا کہ چیف جسٹس نے یہ کردیا وہ کردیا، یہاں ذاتی حملہ کرا لو، گالی گلوچ کر الو بس، چیف جسٹس نے چیئرمین سی ڈی اے کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ساری شاہراہ دستور پر نجی سوسائٹی کے اشتہارات لگے ہیں، کیا عوام لٹ جائیں گے پھر سی ڈی اے ایکشن لے گی؟ چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹی خیبر پختونخوا میں آتی ہے ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی میں فرد جرم عائد کریں؟جسٹس نعیم اختر افغان کے استفسار پرچیئرمین سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے کو وزارت داخلہ سے عملدرآمد کے لیے پاور مل جاتی ہے ، چیف جسٹس نے کہا اگر ایسی بات ہے تو ایف بی آر کو بھی وزارت داخلہ کے ماتحت کردیں، پھر ٹیکس نہ دینے والوں کو پولیس پکڑ لے گی، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ کیا وزارت داخلہ وزیر اعظم آفس سے بھی زیادہ طاقتور ہے ؟۔

بعدازاں عدالت نے حکم نامے میں کہا عدالت میں فریقین نے رضامندی ظاہرکی تھی کہ نیشنل پارک ایریا سے ریسٹورنٹس منتقل کردیں گے مونال ریسٹورنٹ کے مالک لقمان علی افضل نے سپریم کورٹ کیخلاف مہم چلائی اورکہا سپریم کورٹ کے فیصلے کے ذریعے ملازمین بے روزگارہوگئے ، بادی النظرمیں لقمان علی افضل کا عدلیہ مخالف مہم چلانا توہین عدالت ہے عدالت لقمان علی افضل کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا،حکم نامے مزید کہاکہ حکومت نے وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کوموسمیاتی تبدیلی کی وزارت سے وزارت داخلہ کے سپرد کرنے کا نوٹیفکیشن وزیراعظم نے واپس لیا ،وزیراعظم آفس کی بے توقیری نہیں ہونی چاہیے ، وزیراعظم آفس کودیکھنا چاہیے دی جانی والی تجاویز عوامی مفاد کے تحت ہیں یا ذاتی مفاد کو پروان چڑھایا جارہا ہے یہ معاملہ حکومت پرچھوڑتے ہیں، عدالت نے وائلڈ لائف بورڈ وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے سے متعلق اٹارنی جنرل سے وضاحت طلب کرلی، چیف جسٹس نے استفسار کیا اسلام آباد کی زمین سونا ہے ،اسلام آباد میں سب سے مہنگی زمین کہاں ہے ؟ ۔اٹارنی جنرل نے کہا ای سیکٹر سب سے مہنگا ہے ،چیف جسٹس نے کہا ای سیکٹر مہنگا کیوں ہے ؟ ۔ عدالت کو بتایا گیا ای سیکٹر کے سامنے مارگلہ ہے اس لئے مہنگا ہے ۔چیف جسٹس نے کہا اور جب منصوبے مارگلہ کے اندر بنیں گے تو مزید مہنگے ہوں گے ،اب آپ کو وجہ سمجھ میں آئی؟ یہی 'ایلیٹ کیپچر'ہے ، ای سیکٹر بنایا کس نے تھا؟ ۔

وکیل وائلڈ لائف بورڈ نے کہا ای سیکٹر ضیا دور میں بنا تھا۔چیف جسٹس نے کہا بس حکم آگیا ہو گا پھر کسی نے دیکھا ہی نہیں یہ قانونی ہے یا نہیں،ایک فون بس آجائے تو یہ کر دیا وہ کر دیا ملک ایسے نہیں چلے گا،ہم نے مارگلہ میں کمرشل سرگرمیاں روکنے کا کہا نوٹیفکیشن نکلنے لگے ، یہاں کہا جاتا ہے مارگلہ میں پودے لگا رہے ہیں، چار دہائی پہلے ایک صاحب آئے اور پیپر میلبری لگاتے رہے ، کسی ایکسپرٹ سے پوچھا بھی نہیں گیا ہو گا،مونال کے مالک نے سپریم کورٹ کیخلاف پراپیگنڈا شروع کر دیا، کہتے ہیں ملازمین بے روزگار ہو جائیں گے ، اپنے کسی اور ریسٹورنٹ میں انہیں ملازمت دے دیں،لقمان افضل عدالت نہیں آئے ؟ کسی یوٹیوب کو انٹرویو دے رہے ہوں گے ۔ڈی جی گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے پیش ہو کر بتایا ہم نے پائن سٹی کوتعمیرات سے روکا یہ اسٹے لے آئے ۔چیف جسٹس نے پائن سٹی کے مالک سے استفسار کیا آپ وہاں کیاں بنانا چاہتے ہیں؟ ۔کیپٹن ریٹائرڈ صدیق انور نے کہا مجھے معاف کر دیں میں کچھ نہیں بناوں گا۔چیف جسٹس نے کہا آپ نام نہیں کام ہی بدل دیں، یہاں تعمیرات نہیں ہو سکتیں،آپ ملکیت رکھیں مگر اس پر تعمیرات نہیں کر سکتے ۔ عدالت نے سیکرٹری کابینہ اور سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی کیخلاف جاری کیے گئے نوٹسز واپس لے لیے ۔مزید سماعت دو ہفتوں تک ملتوی کردی گئی ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں