40فیصد بیج امپورٹڈ اور ناکارہ،حکومتی توجہ کی ضرورت

40فیصد بیج امپورٹڈ اور ناکارہ،حکومتی توجہ کی ضرورت

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)ماہر زرعی امور ناصرعلی شاہ بخاری نے کہا پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ 1972 کے بعدکارپوریٹ فارمنگ پرکبھی توجہ نہیں دی گئی، کوئی ایسی ریگولیشن نہیں تھی جس سے کارپوریٹ فارمنگ میں انویسٹمنٹ کی اجازت دی جاتی۔

پروگرام دنیا کامران خان کیساتھ میں گفتگو کرتے ناصربخاری نے کہا کارپوریٹ فارمنگ کا یہ جو پروگرام شروع ہوا اس سے ٹرن رائونڈ ممکن ہوسکا،میں چولستان گیا تھا، تقریباً ایک لاکھ ایکڑزمین جو صحرا ہے ، اس کو ٹریکٹر لگاکربرابر کردیا گیا،وہاں 220 فٹ کا نیا روڈ بنایا جارہا ہے ،برساتی پانی جو ہم سمندر میں پھینکتے ہیں ان کیلئے نئی نہریں نکالی جائیں گی،پیداوار کوبڑھانے میں جواہم کردار ہوتا ہے وہ ہے بیج جوپاکستان میں امپورٹ کیا جاتاہے ،3ہزار 8سو کمپنیاں بیج امپورٹ کررہی ہیں،سب وہ بیج استعمال کرتے ہیں جو ناکارہ ہو،جو چاریا پانچ سال پرانا بیج ہو، اس کو امپورٹ کرکے پاکستان میں نئی پیکنگ کرکے فروخت کیا جاتا ہے ،جس سے پیداوار کم ہوتی ہے ۔ چیئرمین سندھ آباد کار بورڈمحمود نواز شاہ نے کہا پاکستان کی آج وہی میجر زراعت ہے جو کاشت کار کرتے ہیں،جو پیداور بڑھی ،وہ سندھ میں ہوئی، پہلے سندھ پنجاب سے آدھی کپاس پیدا کرتا تھا، آجکل سندھ پنجاب سے زیادہ پیداکررہا ہے ، 2022-23میں یہاں کاٹن ڈبل ہوئی ہے ،کچھ مزید چیزیں درست کرنے کی ہیں، حکومت کو چاہئے کہ اس طرف توجہ دے ، پاکستان میں 40 فیصد بیج اپنا نہیں،گندم، چاول سمیت کئی فصلوں کیلئے بیج امپورٹ کیا جارہا ہے ،سندھ سیڈ کارپوریشن کے پاس 6 ہزار ایکڑ زمین ہے ،آج انکے پاس تنخواہوں کے پیسے بھی نہیں ،پانی ہمارے پاس بہت کم ہے ، زراعت بارشی پانی سے دو ماہ میں نہیں ہوسکتی، پاکستان کی زراعت ڈیم اور پانی جو زیادہ ہے اس حساب سے ہوتی ہے ،ایسا ممکن نہیں آج بارش پڑی،میں ہل لے گیا اور وہاں اگالیا،پھر میں واپس آگیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں