بلوچستان میں دہشتگردی چیلنج ،حکومت سدباب کیلئے پرعزم

 بلوچستان میں دہشتگردی چیلنج ،حکومت سدباب کیلئے پرعزم

(تجزیہ:سلمان غنی) بلوچستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کا رجحان عرصہ سے حکومت کیلئے چیلنج بنا نظر آرہا ہے اوروفاقی اورصوبائی حکومتیں اس حوالہ سے ممکنہ اقدامات کرنے اور دہشت گردی کے سد باب کیلئے پرعزم نظر آتی ہیں۔

اس حوالے سے ضروری اقدامات بھی ہوتے ہیں اور مختلف آپریشنز میں دہشت گردوں کے انجام کی خبریں بھی آتی ہیں لیکن اس رجحان کا قلع قمع نہ ہوسکا اوراب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ علاقائی اور فرقہ وارانہ تنظیمیں کھل کر ریاست کی رٹ پر اثر انداز ہورہی ہیں ۔شاہراہوں پر معصوم شہریوں کی ٹارگٹ کلنگز کے ساتھ مختلف علاقوں میں دھماکوں اور سکیورٹی اداروں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور یہ کھلا اعلان جنگ  ہے ۔ سی پیک کا عمل اور گوادر کی بندر گاہ کامعاشی حوالہ سے کردار دشمن کو ہضم نہیں ہوپارہا اور بعض عالمی قوتیں اورخصوصاً بھارت اپنے مفادات کیلئے یہاں دہشت گردی کو ہوادے رہے ہیں ، امریکی اسلحہ اور بھارتی فنڈز کے استعمال کے شواہد ملے ہیں اور بھارتی میڈیا پاکستان سے چینیوں کی واپسی کا ڈھنڈورا پیٹ رہاہے ۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی پاکستان میں عدم استحکام کی منظم کوشش ہے ،بی ایل اے کے دہشت گردوں سے بات چیت نہیں ہوگی ۔حالات کے تناظر میں دیکھاجائے تو ہمارا مغربی بارڈر سرگرم ہے اور اس کے پیچھے افغان سرزمین ہے جہاں پر دہشت گردوں کے مراکز موجود ہیں،طالبان کی حکومت آنے کے بعد انہیں اپنی سرزمین کو دہشتگردی سے پاک کرناچاہئے تھا،خطے میں امن واستحکام لاناچاہئے تھا لیکن معاملات اشرف غنی اورحامد کرزئی کی حکومتوں سے بھی بدتر ہوگئے اور آج اس سرزمین پر ٹی ٹی پی کے مراکز ہیں اور وہ سرگرم عمل بھی ہیں اور ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ پاکستانی سرزمین پرکبھی امن نہیں آنے دینا ۔

بھارت سمیت دشمن جانتے ہیں کہ سی پیک پر عمل درآمد کے بعد پاکستان کو معاشی حوالہ سے پکڑا نہیں جاسکے گا اور اگر پاکستان دفاع کے بعد معاشی حوالہ سے بھی استحکام سے ہمکنار ہوا تو علاقائی محاذ پر بھارت پیچھے رہ جائے گا اور نئی پیدا شدہ صورتحال میں تو وہ بنگلہ دیش میں ہونے والی عوامی تبدیلی کا الزام بھی پاکستانی اداروں پر دیتا نظر آتا ہے ۔افغان ترجمان کی بار بار کی یقین دہانیوں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان میں روابط ہیں ۔دوسری جانب بی ایل اے کھل کر میدان میں ہے اور اب پاکستانی ردعمل سے لگ رہا ہے کہ پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے اور اگر افغان طالبان اپنی سرزمین پر مؤثر اقدامات نہیں کرتے تو پھر پاکستان کے پاس دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کو سرحد پار لے جانے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا اور اس پر سوچ بچار جاری ہے لیکن اس آپشن کو بروئے کار لانے سے مسئلہ میں نئی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے ۔ وزیر داخلہ محسن نقوی کا یہ کہنا ہے کہ بلوچستان میں کسی آپریشن کی ضرورت نہیں یہ ایک ا یس ایچ او کی مار میں تو شائد وہ اس کا ادراک نہیں رکھتے ،اس مسئلہ کو اب اسلام آباد اور راولپنڈی کو سنجیدگی سے لیناچا ہئے یہ دہشت گردی کا عمل گریٹ گیم کا حصہ ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف کو چاہئے کہ قومی سیاسی جماعتوں اور اتحادی جماعتوں کے ذمہ داران اور قوم پرستوں کو ساتھ لیکر بلوچستان کا دورہ کریں اور بلوچستان میں جاکر پیغام دیں کہ بلوچستان میں امن پاکستان کے معاشی مستقبل کیلئے اہم ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں