27 لاکھ پاکستانیوں کا نادرا سے ریکارڈ چوری ہونیکا انکشاف
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں 27 لاکھ پاکستانیوں کا نادرا سے ریکارڈ چوری ہونے کا انکشاف ہوا ہے جب کہ61 تحصیلیں ایسی ہیں جہاں نادرا کے دفاتر ہی موجود نہیں ۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس راجا خرم نواز کی زیر صدارت ہوا، چیئرمین نادرا نے بریفنگ میں بتایا 27 لاکھ پاکستانیوں کا نادرا سے ریکارڈ چوری کیا گیا، 61 تحصیلیں ایسی ہیں جن میں نادرا کے دفاتر نہیں ہیں، یہ ایسی تحصیلیں ہیں جہاں حکومت نے اعلان تو کردیا لیکن ان کی حلقہ بندی نہیں کی۔نادرا کے اندر کئی ایسے تعیناتیاں ہوئیں جو ایڈورٹائز نہیں کی گئیں، بہت سے افسران نے اپنی ڈگریاں بعد میں مکمل کیں ، نادرا کے دفاتر کو نہیں بڑھا سکتے ، اس کیلئے شناختی کارڈ کی فیس بڑھانا ہو گی۔ انہوں نے بتایانادرا کا اپنا فنڈ ہے ، ہم نے فیس تبدیل نہیں کی، کارڈز کو ری نیو نہیں کیا، ہمارا بجٹ 57 ارب ہے اور 87 فیصد تنخواہوں میں جاتا ہے جب کہ وفاقی حکومت کا چیئرمین اور بورڈ کی تعیناتی کے علاوہ کوئی عمل دخل نہیں ۔ نادرا کی تمام تعیناتیاں نادرا حکام کی جانب سے کی جاتی ہیں۔ کمیٹی کے رکن حنیف عباسی نے کہا نادرا کے دفتر سے افغانوں کے جعلی شناختی کارڈ بنے ۔ آغا رفیع اللہ نے کہا انہوں نے فیصلہ کیا تھا بہاریوں کا مسئلہ حل کرکے آگے بڑھیں گے ، یہ کمٹمنٹ ہوئی تھی کہ جب تک بہاریوں کا مسئلہ حل نہیں ہوتا کوئی حکومتی بل منظور نہیں ہوگا۔ طارق فضل چودھری نے آغا رفیع اللہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا میں بہاریوں کے مسئلے پر آپ کی بھرپور سپورٹ کرتا ہوں۔ اجلاس کے د وران 3 اور 16 ایم پی او قوانین سے متعلق بل میں ترمیم کی مخالفت کی گئی۔ صاحبزادہ صبغت اللہ نے کہا یہ وہ بل ہے جس کی قائد اعظم نے بھی انگریزوں کے دور میں مخالفت کی تھی۔ زرتاج گل نے کہا مجھے بنا دوپٹے کے گھر سے تھری ایم پی او کے تحت گھسیٹا گیا۔
حنیف عباسی نے کہا انہیں گرفتار کیا گیا، میری بیٹی کو میڈیکل کالج سے نکال دیا گیا، ماں، بہن اور بیٹی کو ان معاملات میں لانے کی مخالفت کرتا ہوں۔ صاحبزادہ حامد رضا نے کہا ان کی بہن جو ملک میں بھی نہیں تھیں انہیں بھی 9 مئی کے مقدمے میں ملوث کیا گیا۔ بجلی چوری کے حوالے سے پولیس اختیارات پر سیکرٹری پاور ڈویژن نے بتایا کہ جس کیس میں قابل دست اندازی جرم نہ ہو پولیس کارروائی نہیں کر سکتی، ہم نے جب مقدمات کا اندراج کیا تو سندھ حکومت سے اعتراض آیا، بجلی چوری روکنے کے حوالے سے ایکٹ کے ذریعے مزید اختیارات حاصل کر رہے ہیں۔ عبدالقادر پٹیل نے کہا بڑے چور کو پکڑا نہیں جاتا چھوٹے لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے ، کئی لوگوں کو 3،4 لاکھ کا اچانک سے بل آجاتا ہے ،کئی ماہ بعد پتا چلتا ہے کہ بل غلطی سے اتنا زیادہ آگیا، محکمہ جاتی غلطیوں پر بھی احتساب کا عمل ہونا چاہیے ۔ خواجہ اظہار الحسن نے کہا سوئی سدرن گیس ایکٹ میں تمام چوریوں کے لیے الگ سلیب ہیں، اگر بجلی کا میٹرمیرے نام پر ہے ، چوری کرایہ دار کر رہا ہے توآپ کے پاس کیا پیمانہ ہے کہ چوری کس نے کی ؟پہلے انڈسٹریل چوریاں پکڑی جائیں پھر عام صارفین پر آئیں، اس ترمیم کو ایم کیو ایم کی جانب سے سپورٹ نہیں ملے گی۔ سیکرٹری پاور ڈویژن نے کہا اگر کسی نے بل نہ دیا یا اس نے قسطیں کروا لیں اس پر مقدمہ نہیں ہوتا، پرچہ صرف ٹیمپرنگ پر یا کنڈا لگانے پر ہوتا ہے ، کمیٹی کہتی ہے تو ہم گیس ایکٹ کو دیکھ سکتے ہیں۔