لاہور ہائیکورٹ:سیشن جج کا کیس ٹرانسفرکرنیکا اختیار بحال
لاہور(کورٹ رپورٹر)چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم کی سربراہی میں 5رکنی بینچ نے کیس ٹرانسفر کرنے کے حوالے سے 3 تین رکنی بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا۔
عدالت نے ظہیر عباس ربانی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ٹرائل سے پہلے کیس کسی دوسری عدالت ٹرانسفر کرنے کے حوالے سے سیشن ججز کے اختیارات بحال کر دئیے ،عدالت نے درخواست واپس سیشن جج کو بھجواتے ہوئے فیصلہ کرنے کی ہدایت کر دی،درخواست گزار کے وکیل ذوالفقار علی نے موقف اپنایا کہ درخواست ضمانت کا کیس ماتحت عدالت میں سنا گیا ، اسی عدالت کا اہلکار کیس کا فریق تھا اس لیے درخواست ٹرانسفر کرنے کی استدعا کی،درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ جسٹس فاروق حیدر نے دفعہ 528 اے کے تحت سیشن جج سے رجوع کرنے کی ہدایت کی ،سیشن جج نے کہا کہ اب اس کے پاس کیسز ٹرانسفر کا اختیار نہیں ، استدعا ہے کہ بینچ میرا کیس کسی دوسری تحصیل میں ٹرانسفر کرنے کا حکم دے ۔دریں اثنا چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم نے زیادتی کیس میں ملزموں کی درخواست ضمانت کے مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے زیادتی کے مقدمات کی تمام تر تفصیلات طلب کرلیں، عدالت نے ریمارکس دئیے کہ بتایاجائے اب تک زیادتی کے کتنے مقدمات درج ہوئے ان کی تفتیش کس رینک کے افسر نے کی۔
عدالت نے 4 دسمبر کو پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کو طلب کرلیا،عدالت نے ریمارکس دئیے کہ پہلے انویسٹی گیشن یونٹس ہوتے تھے جنہیں ختم کردیا گیا ،ہمیں کاغذ پر بنے تفتیشی ونگ کی ضرورت نہیں ہے ،کتنے پولیس سٹیشن پر ایک تفتیشی سیل بنایا اس کی تفصیلات دی جائیں،پولیس سٹیشن میں مقدمہ درج ہونے کے بعد تفتیشی سیل کو بھجوایا جاتا ہے یا نہیں؟اگر پہلے قدم کوہی قانونی سپورٹ حاصل نہیں تو اس ایکسرسائز کا کیا فائدہ ہوگا،ریپ مقدمات کی تفتیش اے ایس آئی تو نہیں کرے گا؟ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق نے تفصیلی رپورٹس عدالت کو پیش کردیں،رپورٹ میں بتایا گیا کہ جن تفتیشی افسروں نے تفتیش کی، ان کے رینک اور دیگر تفصیلات اپنی رپورٹ میں پیش کی ہیں۔علاوہ ازیں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ضمنی بیان میں سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کے خلاف درخواست پر سماعت4 دسمبر تک ملتوی کردی،عدالت نے سماعت پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے ملتوی کی،پی ٹی آئی رہنما شیخ امتیاز کے وکیل اظہر صدیق نے درخواست میں موقف اپنایا کہ درخواست گزار کو ایک سال بعد تتمہ بیان میں گرفتار کر لیا گیا،تتمہ بیان کو چھپا کر رکھا جاتا ہے جس کے بعدعام شہریوں گرفتاری کی جاتی ہے ۔