صرف بیانات اور اعلانات سے اسرائیل کی بربریت نہیں روکی جاسکتی

صرف بیانات اور اعلانات سے  اسرائیل کی بربریت نہیں روکی جاسکتی

(تجزیہ: سلمان غنی) فلسطینیوں سے یکجہتی کے اظہار کیلئے دنیا بھر میں سامنے آنے والے بیانات اور اعلانات سے ایک بات تو ظاہر ہوتی ہے کہ انسانیت کے حوالہ سے یہ تحریک تو موجود ہے کہ فلسطینیوں کے خون سے کھیلی جانے والے ہولی بند ہونی چاہئے اور اسرائیل کے ظلم جبر اور بربریت کے آگے بند باندھا جائے لیکن صرف بیانات اور اعلانات سے اسرائیل کے فاشزم کے آگے بند باندھا نہیں جا سکے گا ۔

کیا فلسطینیوں کی نسل کشی بند ہو پائے گی،یہ نہیں ہوگی ،یہ اس لئے ممکن نہیں کہ اس حوالہ سے عالمی برادری اور عالم اسلام دونوں کا دہرا کردار ہے ۔ وہ فلسطینیوں سے یکجہتی کے حوالہ سے زبانی جمع خرچ تو کرتے نظر آتے ہیں لیکن عملاً ان کا کردار بدترین جارحیت کے مرتکب اسرائیل کے حوالہ سے خاموش تماشائی کا ہے اور اسرائیل اسی کا فائدہ اٹھا رہا ہے ۔ کیا آنے والے حالات میں عملاً جنگ بندی ممکن بن پائے گی اور محض جنگ بندی ہی مسئلہ کا حل ہو گی فلسطینیوں کو اپنی سرزمین کو آزاد کرانے اور اس پر آزادانہ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہوگا جہاں تک فلسطینیوں سے یکجہتی کے حوالہ سے اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی دن منانے کا تعلق ہے تو یہ سلسلہ 29نومبر 1947سے شروع ہے ۔ اقوام متحدہ خود اپنی فلسطین کے حوالہ سے قراردادوں پر پیش رفت میں تو کوئی کردار ادا نہیں کر سکا مگر اس کی جانب سے مذکورہ ایشو پر ایک دن کو مختص کرنے کے عمل کو علامتی ردعمل ضرور قرار دیا جا سکتا ہے ، ویسے بھی اقوام متحدہ کا کردار بعض عالمی قوتوں کے مفادات سے مشروط ہے اور اس کے سگنل کے بغیر وہ عملاً پیش رفت کرتی نظر نہیں آتی یہی وجہ ہے کہ اس کا کردار کمزور پڑ رہا ہے جس کی بڑی مثال خود اقوام متحدہ کی قراردادوں اور فلسطین میں پیدا انسانی بحران کی صورتحال پر محض اس لئے پیش رفت نہیں ہوتی کہ امریکا ا ور اتحادی اس کیلئے تیار نہیں ۔ امریکا کسی طور بھی اسرائیل کی اہمیت و حیثیت پر کمپرومائز کیلئے تیار نہیں اور یہی وجہ ہے کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب فلسطینیوں کے خون سے اسرائیل ہاتھ نہ رنگتا ہو ۔

اس ظلم و بربریت پر کوئی حرکت میں نہیں آتا لیکن مذکورہ صورتحال کے باوجود یہ کریڈٹ فلسطینیوں کو جاتا ہے کہ آج بھی وہ جہاں ہیں ، زخمی ہونے کے باوجود بے بہا جانی و مالی نقصان کے باوجود ثابت قدمی کی مثال ہیں ۔ جہاں تک عالم اسلام کا سوال ہے تو عالم اسلام کا کردار فلسطین کے حوالہ سے محض تماشائی کا رہا ،عالم اسلام کے حکمران محض اس وجہ سے بیانات اور قراردادیں پاس کرواتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ان کے عوام کے دل فلسطینیوں کے ساتھ دھڑکتے نظر آ رہے تھے یہی وجہ تھی ، کانفرنسیں تو کیں ، اجلاس بلائے مگر عملاً اسرائیل کا ہاتھ پکڑنے اور مروڑنے کی جرأت نہیں کی ۔ ان کے پاس اسرائیل کو اپنی اس پالیسی پر نظرثانی پر مجبور کرنے کیلئے سفارتی تعلقات کی بندش پٹرولیم کی عدم فراہمی سمیت متعدد آپشن موجود تھے اور بعض ماہرین کے نزدیک اگر صرف اپنے سفارتی ذمہ داروں کو ہی کچھ روز کیلئے واپس بلا لیا جاتا تو اسرائیل کیلئے پیغام بن سکتا تھا لیکن امریکا کے اسرائیل کی طرف جھکاؤ نے انہیں ایسا کرنے سے باز رکھا البتہ پاکستان کو اتنا کریڈٹ ضرور دیا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے جنرل اسمبلی کے عالمی فورم عرب کانفرنس شنگھائی کانفرنس سمیت ہر عالمی اور علاقائی فورم پر غزہ کی صورتحال کو انسانی صورتحال قرار دیتے ہوئے اس پر دنیا کو جھنجھوڑا اور انہیں مل کر کردار ادا کرنے کی بات بھی کی ، فلسطینیوں کی پاکستان سے اشیائے ضروریات ادویات سمیت دیگر سازو سامان کی فراہمی کی بھی مدد کی اور اب بھی وزیراعظم شہباز شریف ، ان کی حکومت عملاً نہیں تو بیانات کی حد تک اسرائیل کا بھیانک اور مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آ رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل لاتوں کا بھوت ہے باتوں سے ماننے والا نہیں ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں