شام میں تبدیلی امریکا اسرائیل بھی ہضم نہ کر پائیں گے
(تجزیہ:سلمان غنی) شام میں آنے والی تبدیلی کو کسی بڑے سیاسی زلزلے سے کم قرار نہیں دیا جا سکتا یہ تبدیلی دنوں میں آئی اور طوفان کی صورت میں سامنے آنے والے ردعمل نے بشار الاسد کی چوبیس سالہ حکومت کو ڈھیر کر کے رکھ دیا۔
جنگجو لیڈر محمد الجولانی کا کہنا ہے کہ ہمارا مقصد بشار الاسد کی حکومت کو گرانا تھا ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکے ہیں اور ہم اب شام میں ایسی تبدیلی لائے ہیں جس میں بڑا کردار شام کے عوام کا ہوگا ،ایک ہفتے سے آنے والی رپورٹس میں کہا جا رہا تھا کہ اپوزیشن کے حملوں کو امریکا اسرائیل اور ترکیہ کی آشیر باد حاصل ہے اور یہ تاثر تو عام تھا کہ امریکا اور اسرائیل بشار الاسد کو پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ روس اور ایران سے دوستانہ مراسم کے حامل تھے اور حزب اللہ کی حمایت بھی کرتے نظر آتے تھے اور حمایت کا ردعمل دوطرفہ تھا ترکیہ چاہتا تھا کہ شام اپنے لاکھوں مہاجرین واپس لے جو سول وار کے بعد ترکیہ کے کیمپوں میں پناہ گزین تھے ترکش لیڈر شپ کا شکوہ یہ تھا کہ بشار الاسد کسی کی بات سننے اور ماننے کیلئے تیار نہ تھے ،بشار الاسد کی پالیسیوں کے باعث شام کے اقتصادی حالات بھی بہت خراب تھے ،تہران اور ماسکو مدد کر سکتے تھے لیکن ان کے اپنے مسائل مدد میں رکاوٹ بنتے رہے امریکا اور اسرائیل کی پالیسی مشرق وسطیٰ میں کامیاب رہی گو کہ عرب عوام کے جذبات ہمیشہ سے ان کے خلاف رہے ، حیات تحریر الشام اور اس کے لیڈر ابو محمد الجولانی پر بھاری ذمہ داری آ گئی کیونکہ وہ جس بنا پر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف سرگرم تھے اب انہیں وہاں وہ تبدیلی لا کر دکھانا پڑے گی ،شام دینی اعتبار سے پوری دنیا کے مسلمانوں کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جسے حضور اکرمﷺ نے برکت کا باعث قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس جگہ اللہ کے بہترین بندے سکونت اختیار کریں گے ،بشار الاسد کی حکومت کے خلاف سرگرم کردار ادا کرنے والی حیات تحریر الشام جو کہ اسلام پسند گروہ ہے یہ ماضی میں القاعدہ کے ساتھ منسلک رہا لیکن بعد ازاں اس نے خود کو القاعدہ سے الگ کر لیا ان کی جہادی طاقت نے شام کی فوج کو تمام شہروں میں سرنڈر کرنے پر مجبور کیا اور اب اطلاعات یہ ہیں کہ شامی افواج ا پنے ٹھکانے چھوڑ رہی ہے اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ بشار الاسد نے کئی سالوں سے اپنی حکومت کو داخلی حمایت سے الگ کر لیا تھا ،ماہرین کا کہنا ہے کہ شام میں آنے والی تبدیلی کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ تبدیلی امریکا اور اسرائیل کے حق میں ہے کیونکہ یہ جو جہادی گروپ یہاں غالب آیا ہے وہ کسی سپر پاور کو ماننے کی بجائے خدا تعالیٰ کی حقانیت کی بات کرتا نظر آ رہا ہے اور لگتا یہی ہے کہ یہ تبدیلی مستقبل میں امریکا اور اسرائیل ہضم نہیں کر پائیں گے اور آنے والی حکومت اسرائیل دوست نہیں ہوگی۔