حکومت پی ٹی آئی مذاکرات ، پیشگی شرائط پر پیشرفت نا ممکن
(تجزیہ:سلمان غنی) حکومت اور پی ٹی آئی میں غیراعلانیہ مذاکرات کی خبریں ہیں پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکراتی کیلئے پانچ رکنی کمیٹی کے قیام کو اس ضمن میں مثبت پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔
مگر دوسری جانب حکومت کی جانب سے باضابطہ مذاکراتی عمل کی تصدیق نہیں ہو پا رہی، حکومتی ذرائع سے یہ خبریں ضرور آ رہی ہیں کہ حکومت مذاکراتی عمل پر تیار ہے مگر اس حوالے سے کسی پیشگی شرائط پر پیشرفت ممکن نہیں ۔ اس امر کا تجزیہ ضروری ہے کہ کیا واقعتاً پی ٹی آئی حکومت سے مذاکرات میں سنجیدہ ہے اور کیا حکومت موجودہ حالات میں مذاکرات پر آمادہ ہوگی جہاں تک پی ٹی آئی کی مذاکرات میں دلچسپی اور کمیٹی کے قیام کا تعلق ہے تو 26 نومبر یک صورتحال کے بعد اس کیلئے سیاسی مسائل بڑھے ہیں ۔ وزیراعظم شہباز شریف بھی اب مذاکرات کی بجائے اسلام آباد کی کال پرعمل کے ذمہ داران کو انکے انجام تک پہنچانے کا عزم ظاہر کرتے نظر آتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دونوں طرف اس بارے کنفیوژن ہے پی ٹی آئی مذاکرات کی بات بھی کرتی نظر آتی ہے اور سول نافرمانی کا عزم ظاہر کرتے ہوئے بھی دکھائی دیتی ہے اور حکومت مذاکرات کی ضرورت تو محسوس کرتی ہے مگر ریاستی اداروں کو ٹارگٹ کرنے کے عمل میں ملوث افراد کو معافی دینے کو تیار نہیں اور اس بنا پر پی ٹی آئی کو ٹارگٹ کرتی دکھائی دیتی ہے لہذا مذاکراتی عمل کی خواہش ضرورتوں کا تبادلہ تو ہے مگر فریقین اس پرسنجیدہ نہیں۔
پی ٹی آئی کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ وہ حکومت سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی خواہاں ہے اور حکومت مذاکراتی عمل کو محض وقت گزاری کا ذریعہ تو بنانا چاہتی ہے مگر اسٹیبلشمنٹ ڈائیلاگ کیلئے تیار نہیں جہاں تک سول نافرمانی کے امکانات کا تعلق ہے تو یہ بے وقت کی راگنی نظر آ رہی ہے ۔معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ موجودہ حال میں جب ملک بمشکل ڈیفالٹ کے خطرے سے نکلا ہے سول نافرمانی تحریک مہلک ثابت ہوگی۔جہاں تک بیرون ملک بیٹھے پاکستانیوں کے ترسیلات زر کا سوال ہے تو لاکھوں خاندان ایسے ہیں جو پیاروں کی جانب سے بھجوائی جانے والی رقوم پر گزر بسر کرتے ہیں ۔بجلی کا بل پھاڑنے والے لیڈر نے اس ماہ کا زمان پارک کا بل بھی ادا کیا تھا اور بعدازاں یہ کہتے ہوئے اپنی اس اپیل کو مسترد کر دیا تھا کہ سردیوں کے موسم میں گرم پانی کے بغیر نہایا نہیں جا سکتا اور ویسے بھی خود پی ٹی آئی کے اندر اس پر شدید تحفظات ہیں اور لگتا ہے کہ یہ آپشن بھی کارگر نہیں ہوگا ۔ اب اگر پی ٹی آئی ایسے طرز عمل پر نظرثانی کیلئے تیار ہے او رحکومت کے ساتھ بیٹھنا چاہتی ہے تو پھر حکومت کو لیت و لعل نہیں برتنا چاہیے ۔جہاں تک 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر کمیشن کا سوال ہے تو اس حوالے سے حکومتی سطح پرنہیں البتہ کوئی بھی فیصلہ عدلیہ کے محاذ پر ہوسکتا ہے جہاں پی ٹی آئی نے رجوع کر رکھا ہے جبکہ حکومت کاکہناہے کہ سانحہ 26 نومبر کا ذمہ دار خود پی ٹی آئی کی قیادت ہے ۔