بلوچستان میں احساس محرومی کی ذمہ دار بلوچ لیڈرشپ

تجزیہ:سلمان غنی بلوچستان میں دہشتگردی کا ایشو نیا نہیں وقفے وقفے سے دہشتگردی کا یہ رحجان حکومتوں کیلئے امتحان رہا ہے اور ممکنہ اقدامات کے باوجود آخر کیا وجوہات ہیں کہ بلوچستان میں احساس محرومی کی بات بھی ہوتی ہے اور بڑھتے مسائل کی بنا پر کہا جاتا ہے۔
کہ عوام میں ردعمل موجود ہے اور اسی کو بنیاد بناکر کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کے سیاسی مسائل حل تک نہ تو دہشتگردی کا قلع قمع کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی یہاں امن و امان بحال ہو سکتاہے لہذا اس امر کا تجزیہ ضروری ہے کہ بلوچستان میں ہنگامی اور غیر معمولی صورتحال اور بڑھتی دہشتگردی کا رحجان کیا ظاہر کرتا ہے حکومتیں اپنی رٹ کیونکر قائم نہیں کر پاتیں ۔اب یہ بات تسلیم کر لینی چاہئے کہ بلوچستان بین الاقوامی پراکسی کا میدان بن چکا ہے اور پاکستان کو یہی فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں اپنے اس صوبہ میں رٹ کیسے قائم کرنا ہے اور مسائل کا حل کیسے نکالنا ہے ۔جہاں تک بلوچستان کے ایشوز خصوصاً احساس محرومی کا سوال ہے تو اسکی ذمہ دار اسلام آباد کی حکومت اور ریاست سے زیادہ خود بلوچ لیڈر شپ ہے ۔کیا پچھتر سال میں یہاں بگٹی ،جمالی ،رئیسانی ،بزنجو ،مینگل ،جام ،رند وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ نہیں رہے ؟کیا صوبوں کو ممکنہ وسائل فراہم نہیں کئے گئے اور انکا درست استعمال کیوں نہ ہو سکا اور ان وسائل کا درست استعمال کیا جاتا تو یہاں غربت اور پسماندگی کا قلع قمع کیا جا سکتا تھا ۔
پنجاب نے بڑا بھائی ہونے کے ناطے نیشنل فنانس کمیشن کے تحت اپنے حصہ میں سے بلوچستان کو گیارہ ارب اور پختونخوا کو چھ ارب کے فنڈز فراہم کئے لیکن انکا کیا درست استعمال ہو سکا ؟اب یہ کہنا کہ وفاق نے ہمیں حق نہیں دیا اور ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا اس کا کوئی جواز نظر نہیں آتا ۔بلوچستان میں سیاست جتنی مضبوط ہوگی دہشتگردی کا رحجان کمزور پڑے گا حکومت ڈیلور کرتی نظر آئے گی تو احساس محرومی کا خاتمہ ہوگا ،لہذا یہ جنگ لڑنے کے لئے یکسوئی بہت ضروری ہے ۔اب حکومت اور ریاست کو سکیورٹی اداروں سے ملکر اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنی چاہئے اور اس بار حکمت عملی کو نتیجہ خیز بنانے کی سعی کرنی چاہئے بلوچستان اور پختونخوا میں امن یقینی بنانے کیلئے تمام سیاسی قوتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ملکر چلنا ہوگا تاکہ دشمنوں کے عزائم خاک میں ملائے جائیں اسکے ساتھ ہی افہام و تفہیم سے معاملات یکسو کرنے پر بھی توجہ دینا ہوگی اور مذاکرات اور آپریشن ساتھ ساتھ چلنے چاہئیں علیحدگی پسند جن وجوہات کو بنیاد بنا کر بلوچوں کا ذہنی استحصال کرتے ہیں ان وجوہات کو ایڈریس کرنا پڑے گا ۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلح افواج کیخلاف زہریلا پراپیگنڈا کا توڑ کیا جائے اسلئے کہ فوج کا جرم صرف اور صرف پاکستان اور پاکستانیت ہے ۔ جس پر وہ کمپرومائز کرنے کو تیار نہیں اور یہ فوج ہی تھی جس نے دہشتگردوں کیخلاف جوابی کارروائی سے پانسہ بدل دیا قوم کا حوصلہ بحال ہوا اور آج بھی فوج پاک سرزمین کو دہشتگردی سے پاک رکھنے کیلئے پرعزم نظر آتی ہے ،لہذا اب جب حکومت اور اپوزیشن دونوں دہشتگردی کے توڑ کیلئے قومی اتفاق رائے کے اظہار پر یکسو ہیں اور اے پی سی کی تیاری ہو رہی ہے تو انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ انکی سیاست پاکستان سے مشروط ہے پاکستان ہی انکی سیاست اور حکمرانی کا ذریعہ ہے لہذا انہیں مضبوط اور خوشحال پاکستان کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔