آئی ایم ایف معاہدہ معاشی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار

آئی ایم ایف معاہدہ معاشی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار

(تجزیہ:سلمان غنی) آئی ایم ایف اور پاکستان میں مذاکراتی عمل کی کامیابی کے بعد سٹاف لیول معاہدہ بلاشبہ حکومتی کامیابی اور اسکی معاشی پالیسیوں پر اعتماد اور اعتبار کا ااظہار ہے جسکا اندرون ملک تو معاشی صورتحال پر اثر پڑے گا لیکن بیرونی محاذ پر بھی پاکستان پر اعتماد بڑھے گا اور غیر ملکی سرمایہ کار کی ترجیح پاکستان بن سکتا ہے لیکن عوامی سطح پر اسکے اثرات کیا رونما ہوں گے یہ دیکھنا پڑے گا۔

تجزیہ ضروری ہے کہ معاشی محاذ پر حکومتی اقدامات کیسے کارگر بنیں اور سیاسی محاذ پر معاشی بحالی و ترقی کے عمل پر اتفاق رائے میں کیونکر پیشرفت نہیں ہو پاتی اور یہ کہ آئی ایم ایف سے معاملات اور معاہدے کے باوجود عام آدمی کے مسائل میں کمی کیونکر نہیں ہو پاتی جہاں تک آئی ایم ایف سے سٹاف لیول معاہدہ کا سوال ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کم از کم معاشی حوالے سے سنجیدہ ہے اور معاشی معاملات آگے چلانا چاہتی ہے ۔یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ریونیو میں اضافہ زیادہ تر تنخواہ دار طبقات کی وجہ سے ہی ہوا اور اس کا دباؤ عام آدمی پر آیا لیکن اس بارے کاروباری طبقات کا جو کردار سامنے آنا چاہئے تھا وہ نہیں آیا البتہ معاہدہ کے بعد اب اس حوالے سے تو دو آرا نہیں رہیں کہ پاکستان دیوالیہ پن کے خطرات سے نکل چکا ہے اور آگے کی طرف پیشرفت جاری ہے جہاں تک خود وزیراعظم شہباز شریف کا صوبوں کے تحفظات کے باوجود زرعی ٹیکس کے اعلان کا تعلق ہے تو ماضی میں اس پر بار بار اصرار کے باوجود اس پر پیشرفت نہیں ہوئی تھی اور زراعت سے وابستہ افراد اس میں بڑی رکاوٹ بنے نظر آتے تھے لیکن اس دفعہ آئی ایم ایف کے دباؤ پر حکومت کو اسکے سامنے سرنڈر کرنا پڑا اور صوبوں میں اب اس حوالے سے پیشرفت ہوگی البتہ اب بھی زمیندار طبقہ اپنے مفادات کیلئے اس عمل پر رکاوٹیں ضرور پیدا کریگا اور ایسی اطلاعات ہیں کہ زرعی ٹیکس کیخلاف منظم احتجاج کی کوشش کی جا رہی ہے ۔

ایک بات جو حکومت کی معاشی کارکردگی اور اسکی مقبولیت بارے اچھی نہیں وہ تنخواہ دار طبقے پر آنے والا دباؤ سے وزیراعظم شہباز شریف اس لوڈ کو تسلیم بھی کرتے ہیں مگر اس پر ریلیف دینے کو تیار نہیں مگر عملاً صورتحال یہ ہے کہ خود ملک بھر میں لاکھوں سرکاری ملازمین کو تو آئندہ بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ سے جواب دے دیا گیا ہے مگر خود سیاسی اشرافیہ کی تنخواہ میں کئی سو گنا اضافہ نے حکومت کے آگے بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر رکھا ہے ۔وزیراعظم شہباز شریف اب بھی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اب اشرافیہ کو رعایت نہیں ملے گی لیکن اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ جتنا پاکستان کی بربادی میں اشرافیہ کا کردار ہے کسی اور کا نہیں اس طرح ٹیکسوں کا بوجھ بھی تنخواہ دار طبقے اور عوام پر آیا اور ان سے نکلوانے کیلئے کبھی بجلی قیمتوں میں اضافہ ہوا کبھی گیس اور کبھی پٹرولیم کی قیمتوں میں اور اسکے نتیجہ میں عام اشیائے ضروریات کی قیمتوں کو آگ لگتی رہی لہذا اب بھی اگر وزیراعظم شہباز شریف غریب عوام سے یکجہتی کا اظہار چاہتے ہیں تو انہیں اشرافیہ کو ملنے والی بے دریغ مراعات کا خاتمہ کرنا چاہئے عالمی ماہرین معیشت تو یکسو ہیں کہ قرضوں کی معیشت کبھی موثر مضبوط اور دیرپا نہیں ہوئی اصل معیشت وہی ہے جس میں آپ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں اورمعاشی ترقی کا عمل دوسروں کو آپکی طرف رجوع کرنے پر مجبور کرے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں