بلوچستان کی ترقی سے بلوچ انتہا پسندوں کی اپنی بقا زد میں

تجزیہ:سلمان غنی بلوچستان میں پیدا شدہ حالات پر وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کا یہ کہنا کہ یہاں کسی بڑے آپریشن کا امکان نہیں اطمینان کو ظاہر کر رہا ہے کہ حالات انکی گرفت میں ہیں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمارے پاس اس امر کے مصدقہ ثبوت موجود ہیں۔
کہ بلوچستان یکجہتی کمیٹی دہشتگردوں کو سپورٹ کرتی ہے لہذا دیکھنا ہے کہ حکومت کس حد تک انکی سرگرمیوں پر قابو پا رہی ہے ۔حقائق کا جائزہ لیا جائے تو بلوچ علیحدگی پسندوں نے گزشتہ کچھ عرصے سے سکیورٹی فورسز اور غیر مقامی افراد پر حملوں کا عمل تیز کر رکھا ہے اگرچہ جعفر ایکسپریس پر حملہ کے بعد حکومت نے سکیورٹی کافی سخت کر دی ہے اور دہشتگردوں اور تخریب کاروں کیخلاف ٹارگٹڈ آپریشن شروع کر رکھے ہیں لیکن دیکھنے میں آ رہا ہے کہ دہشتگرد پھر بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اپنی موجودگی کا ثبوت واقعات کے ذریعہ دیتے نظر آتے ہیں۔
،زیادہ تر حملے ساحلی شہر گوادر پسنی اور انکے ارد گرد کے علاقوں میں ہو رہے ہیں حکومت سے آنے والی اطلاعات کے مطابق یہ سارا سلسلہ دراصل غیر ملکی سرمایہ کاری سے چلنے والے منصوبوں خصوصاً سی پیک کے منصوبوں کو ناکام بنانے اور گوادر کی بندرگاہ کی فعال حیثیت کو روکنے کیلئے ہورہے ہیں۔ دوسری جانب بلوچ انتہا پسندوں کا موقف یہ ہے کہ خطے کے وسائل کو باہر کے لوگ استعمال کر رہے ہیں لیکن مقامی آبادی محرومیوں کا شکار ہے ،بلوچستان میں بغاوتوں کا سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے خصوصاً 2004سے یہ مکمل طورپر شروع ہے اور اب یہ لوگ کھل کر ریاست کیخلاف سرگرم نظر آ رہے ہیں اگر انکی جدوجہد پر نظر دوڑائی جائے تو یہ کبھی سیاسی مسائل کا ذکر کرتے نظر نہیں آتے لیکن انکا ہدف وہاں سکیورٹی فورسز ہیں ، عام تاثر یہ ہے کہ انہیں ہمسایہ ممالک خصوصاً بھارت کی تائید حاصل ہے جو انہیں فنڈنگ کرتا ہے اور یہ افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہیں۔
اس میں کوئی دو آرا نہیں کہ بلوچستان میں پراجیکٹس کی تکمیل سے یہاں انفراسٹرکچر بھی بہتر ہوگا اور ترقی و خوشحالی کے امکانات بھی بڑھیں گے لیکن بی ایل اے و دیگر تنظیمیں یہ سمجھتی ہیں کہ ترقی و خوشحالی سے خود انکی بقا پر زد پڑے گی لہذا وہ ان منصوبوں کو یہاں کامیاب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتیں۔ بلوچستان میں بعض تنظیمیں خود کو بی ایل اے کی تحریک کے ساتھ منسلک تو نہیں کرتیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اسکی مذمت بھی نہیں کرتیں اور مطلب اسکے سوا کچھ نہیں کہ وہ انکی خاموش حمایت کر رہی ہیں ۔دوسری جانب بلوچ لیڈرشپ کی پراسرار خاموشی اسلئے ہے کہ وہ خود ماضی میں بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ رہ چکے ہیں اسلئے وہ سوچتے ہیں کہ بلوچستان کے ایشو کی بات ہو گی تو انہیں پھر جوابدہ ہونا پڑے گا کیونکہ بلوچستان کو سالانہ بنیادوں پر اربوں کھربوں کے فنڈز ملتے ہیں ۔اب بھی وقت ہے کہ بلوچستان کے سیاسی مسائل حل کیلئے بلوچ لیڈر شپ کو آگے آنا چاہئے اور اسلام آباد کو بھی انکے مسائل پر ہمدردانہ غور کرکے اقدامات کرنا چاہئیں۔ بلوچ سب سے بڑھ کر پاکستانی ہیں انہیں دہشتگردوں، تخریب کاروں کے رحم و کرم پر چھوڑنا کسی طرح ملکی مفاد میں نہیں ۔