آئی ایم ایف شرائط کے باوجود بجلی کس طرح سستی ہوئی

(تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے گھریلو صارفین کے لئے بجلی کی قیمتوں میں 7 روپے 41پیسے اور صنعتی صارفین کے لئے 7 روپے 69 پیسے فی یونٹ کمی کے اعلان کو ملک میں معاشی استحکام صنعتی ترقی کے عمل اور خصوصاً مہنگائی زدہ عوام کے لئے ایک بڑے ریلیف کے طور پر لیا جا رہا ہے ۔
اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے باوجود بجلی کی قیمتوں میں کمی کس طرح یقینی بنی ۔جہاں تک بجلی کی قیمتوں میں کمی کے اعلان کا تعلق ہے تو اس حوالے سے یہ تحریک خود مسلم لیگ ن کی سطح پر پہلے سے موجود تھی ۔ مسلم لیگ ن یہ سمجھتی تھی کہ بجلی کے بل عوام کی زندگیاں اجیرن بنائے ہوئے ہیں اور ان میں کمی کے بغیر معمولات زندگی چل نہیں سکتے ۔ وزیراعظم نے آئی ایم ایف سے جاری اپنے مذاکراتی عمل میں جہاں معاشی حوالے سے اصلاحات اور خصوصاً ریونیو ٹارگٹس کے حصول کیلئے اقدامات پر عمل درآمد بارے مطمئن کیا ، وہاں انہوں نے آئی ایم ایف کو باور کرایا کہ طے شدہ معاہدے کے تحت بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کا عمل ہمارے بس میں نہیں ، ہم عوام کو اس کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے لہٰذا آئی ایم ایف جو اصلاحاتی عمل پر حکومت کو دباؤ میں لے آیا تھا پھر اس حکومتی تگ و دو پر آئی ایم ایف نے حکومت پر اعتماد کیا اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کی شرط تسلیم کرلی۔بجلی کی پیداوار میں اضافہ لازم ہے ۔
اس دور میں بجلی کے کارخانے لگے اور بجلی کی پیداوار اتنی ہو گئی کہ بعد میں وجود میں آنے والی پی ٹی آئی حکومت کے ایک مشیر نے اس کے اعتراف میں یہ کہہ ڈالا کہ انہوں نے بجلی وافر بنا دی ہے ، اس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا ۔ اب خود وزیراعظم شہباز شریف کے دور میں بجلی کی قیمت میں فی یونٹ سات روپے 41پیسے کی کمی کو آج کے حالات میں تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیا جا سکتا ہے ۔خوش آئند امر یہ ہے کہ ایک جانب جہاں حکومت نے گھریلو صارفین کو ریلیف دیا ہے وہاں صنعتی صارفین کے لئے بھی فی یونٹ تقریباً پونے آٹھ روپے میں کمی یقینی بنائی ہے ، یہ اس لئے ضروری ہے کہ صنعتی بحالی ، ترقی کے لیے ناگزیر ہے ۔وزیر اعظم نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کے بڑے اعلان کا سارا کریڈٹ خود لینے کی بجائے اپنی معاشی ٹیم خصوصاً پاور حکام اور سب سے بڑھ کر مسلح افواج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کا خصوصی ذکر کیا ۔ اس کا مطلب ہے منتخب لیڈر شپ کے ساتھ پاکستان کی عسکری لیڈر شپ ملک کی کشتی کو منجدھار سے نکالنے کے لیے کوشاں ہے ۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ایک سال میں پٹرولیم کی قیمتوں میں 38روپے کمی کا ذکر کیا اور اب بھی عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کا رحجان ہے لہٰذا اس کی کمی کا فائدہ پٹرولیم صارفین کو بھی ملنا چاہئے ۔ شہباز شریف کی جانب سے ایک اور اہم بات گردشی قرضے کے حوالے سے کی گئی ، بتایا گیا ہے کہ قرضہ 2393ارب ہے اس مسئلہ کا مستقل حل تلاش کر لیا گیا ہے اور یہ آئندہ پانچ سال میں ختم ہو جائے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ گردشی قرضہ سارے معاشی سسٹم پر اثر انداز ہو رہا ہے ۔ اس کا خاتمہ کئے بغیر آگے چلنا محال ہوگا البتہ بجلی کی قیمتوں کے بحران سے ایک بات قوم کے سامنے کھل کر آئی کہ یہ آئی پی پیز کا عمل سراسر لوٹ مار کا ایسا سلسلہ تھا جس نے قومی خزانے اور ملک و قوم کو ہلا ڈالا ۔ اب کئی آئی پی پیز سے معاہدے ختم ہوئے ۔ دو درجن سے زائد اپنے معاہدوں پر نظر ثانی پر مجبور ہوئے ، یہ پنڈورا بکس اسی طرح بند نہیں ہونا چاہئے بلکہ تحقیقات جاری رہنی چاہئے کہ یہ بجلی کے کارخانے کس کے ہیں اور اربوں کھربوں کمانے والے کون ہیں۔