پاکستان کا بھارت کو جواب جرأتمندانہ، قومی اتحاد بھی دکھانا ہوگا

پاکستان کا بھارت کو جواب  جرأتمندانہ، قومی اتحاد بھی دکھانا ہوگا

(تجزیہ: سلمان غنی) پہلگام کے واقعہ پر سندھ طاس معاہدے کی معطلی سمیت دیگر اقدامات پر پاکستان کا جواب آ گیا ہے قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد پاکستان کیجانب سے آنے والے اعلامیہ کو بروقت جراتمندانہ اور حقیقت پسندانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

 جس میں پاکستان نے جہاں پانی کی بندش کے عمل کو اپنے خلاف اعلان جنگ تصور کرنے کا اعلان کیا ہے وہاں یہ بھی باور کرادیا ہے کہ اپنی آزادی ، خودمختاری ، سلامتی پر آنچ نہیں آنے دیں گے ۔کسی بھی واقعہ کی تحقیقات سے قبل ہی پاکستان پر الزام لگانا بھارت کی پرانی روش ہے ۔ مقبوضہ وادی میں موجود 8 لاکھ بھارتی افواج کی موجودگی کے باوجود کوئی اتنا بڑا واقعہ کرکے فضا سے غائب ہو جائے اور انہیں پتہ نہ چلے ایسا کیسے ہوسکتا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی معاشی حوالے سے ہونے والی پیش رفت اور دنیا بھر سے اہم حکومتی ذمہ داران کی اسلام آباد آمد اور سرمایہ کاری کیلئے اعلانا ت اور اقدامات نے بھارت کو خوفزدہ کر رکھاہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر پاکستان معاشی حوالے سے ٹیک آف کرتا ہے تو پھر علاقائی محاذ پر اس کی اہمیت میں اضافہ کو کوئی نہیں روک سکے گا ۔

دوسری جانب نائب وزیراعظم کا افغانستان کا حالیہ دورہ اور پاک افغان لیڈر شپ کے درمیان مذاکرات کی بحالی اور دہشت گردی کے خاتمہ میں ایک دوسرے سے تعاون کے عمل نے بھی بھارت کو پریشان کر رکھا ہے ،جہاں تک سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کے یکطرفہ اعلان کی بات ہے تو یہ امن معاہدہ کی بھارتی خلاف ورزی ہے کیونکہ اس معاہدہ میں مسلسل لکھا ہے کہ کوئی فریق یکطرفہ طورپر معاہدہ ختم نہیں کر سکتا اور ورلڈ بینک اس کا بڑا گارنٹر ہے ۔پاکستان بھارت کے ہر ہتھکنڈے کا جواب دینے کیلئے الرٹ ہے ، البتہ ایک خبر کی کمی محسوس ہو رہی ہے اس قسم کی جنگی صورتحال میں قومی اتحاد کی ضرورت مسلم ہوتی ہے اور اس میں حکومت سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیتی ہے کیونکہ قومی جذبہ اور ولولہ پیدا کرنا سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔

قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کی اہمیت و حیثیت اپنی جگہ لیکن بھارت کے جارحانہ طرز عمل کے جواب میں اتحاد و یکجہتی کیلئے سیاسی قیادت کو بھی اعتماد میں لینا ضروری ہے جس کیلئے وزیراعظم شہباز شریف کو ایک قدم آگے بڑھانا ہوگا اور تحریک انصاف سمیت جماعتوں کی لیڈر شپ سے بات کرنا ہوگی یہ ایک قومی ضرورت ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ، ادھر بھارت کی جانب سے اختیار کیے جانے والے طرز عمل خصوصاً بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر الزامات لگانے کے عمل پر سفارتکاروں کو اعتماد میں لینا چاہیے تاکہ دنیا کو بھارت کے اصل چہرے سے آگاہ کیا جاسکے اور شواہد کی روشنی میں بتایا جائے کہ دوسروں پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرنے والا بھارت پاکستان سمیت دیگر ملکوں میں دہشت گردی کا مرتکب رہا ہے ، نریند مودی کسی شخصیت نہیں ایک خاص مائنڈ سیٹ کا نام ہے جو انتہا پسندی اور شدت پسندی کا باعث بن رہا ہے ۔

پاکستانی قوم کسی ایشو پر اختلاف رائے کا شکار ہوسکتی ہے لیکن اگر بات بھارت کے طرز عمل اور اس کی جارحانہ اقدام کی ہو تو پاکستانی ہمیشہ ایک قوم کی صورت میں ہم آواز نظرآتے ہیں اور آج کے حالات میں اگر بھارت سے کوئی معرکہ آن پڑا تو 24 کروڑ عوام اپنی بہادر مسلح افواج کی پشت پر ہوں گے لیکن حالات کا رخ بتا رہا ہے کہ بھارت روایتی الزامات کا سہارا لیکر ایک نئی صورتحال طاری کرنا چاہتا ہے مگر عملاً زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستان میں اتحاد و یکجہتی کی فضا اور خصوصاً خود سلامتی کونسل کا اعلامیہ اس کیلئے واضح پیغام ہے اور کہا جاتا ہے کہ جب کوئی قوم اور اس کی فوج اپنی بقا کیلئے مرنے مارنے پر آ جاتے ہیں تو دشمن کتنا بھی بڑا ہو پسپا ہونے پر مجبور ہو جاتا ہے اور اب بھی ایسا ہی لگ رہا ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں