بھارتی حملے کا خطرہ، اگلے 4 دن اہم، پاک فوج کی قوت بڑھا دی، سٹریٹجک فیصلے کرلیے : وزیر دفاع

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک،دنیا نیوز،آئی این پی)وزیردفاع خواجہ آصف نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ بھارت کی جانب سے فوجی کارروائی کسی بھی وقت ممکن ہے، اگلے 4 دن اہم ہیں،بھارتی حملے کا خطرہ موجود ہے، جنگ چھڑنے کی بات نہیں کی، ہم نے اپنی تیاری کرلی،پاک فوج کی قوت بڑھا دی اور سٹریٹجک فیصلے کر لیے ہیں، چین اور خلیجی ممالک ممکنہ جنگ روکنے کی کوششیں کررہے ہیں۔
دونوں جانب افواج آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہیں،پہلگام پر تحقیقات کی پیشکش کا بھارت نے جواب نہیں دیا۔ وہ پیر کو خبر رساں ادارے رائٹرز، انڈپینڈنٹ اردو اور ٹی وی کو انٹرویوز میں گفتگو کر رہے تھے۔ رائٹرز کو انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا گزشتہ ہفتے کشمیر میں سیاحوں پر ہونے والے حملے کے بعد بھارت کی طرف سے فوجی کارروائی کسی بھی وقت ہو سکتی ہے کیونکہ دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے ۔ ہم نے اپنی تیاری کر لی ہے کیونکہ اب یہ خطرہ بہت قریب محسوس ہو رہا ہے ، ایسے حالات میں حکمت عملی کے حوالے سے کچھ اہم فیصلے کرنا ضروری تھے جو کر لیے گئے ہیں۔ انڈیا کی جانب سے بیانات میں سختی آ رہی ہے اور پاک فوج نے حکومت کو ممکنہ انڈین حملے کے خدشے سے آگاہ کر دیا ہے تاہم انہوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائیں کہ انہیں بھارتی کارروائی کے فوری خدشے کا یقین کیوں ہے ۔خواجہ آصف کا کہنا تھا پاکستان ہائی الرٹ پر ہے اور ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال صرف اسی صورت کیا جائے گا جب ملک کے وجود کو براہ راست خطرہ لاحق ہو۔
انڈپینڈنٹ اردو کو انٹرویو میں خواجہ آصف نے انڈیا کے ساتھ حالیہ کشیدگی پر کہاپاکستان اور انڈیا کی فوجیں بڑی تعداد میں تعینات ہیں،دونوں جانب افواج آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہیں، ہم انتہائی درجے پر الرٹ ہیں، اس وقت مقبوضہ کشمیر کی کنٹرول لائن پر فورٹیفکیشن ہے اگر کوئی ٹکراؤ ہوتا ہے تو ا ہم اللہ کے فضل و کرم سے بالکل تیار ہیں۔کشیدہ حالات میں انڈیا سے مذاکرات یا کسی بھی قسم کی بات کے حوالے سے خواجہ آصف نے بتایا اس وقت کسی بھی قسم کے بالواسطہ یا بلاواسطہ مذاکرات نہیں ہو رہے ۔میڈیا میں بھی آیا ہے کچھ لوگوں نے ان (انڈیا)اور ہم سے بھی رابطہ کیا ہے ۔اگر کوئی ملک ثالثی کی پیشکش کرتا ہے تو کیا پاکستان مذاکرات پرتیار ہے ؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہاپاکستان نے تو پہلے بھی کہا ہے اسکی تحقیقات کسی نیوٹرل فورم سے کروا لی جائے ۔ یہ جو واقعہ ہوا ہے جس کا الزام انڈیا ہم پر لگا رہا ہے اس کا دنیا کو پتہ لگ جائے کہ اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ایسا آزاد فورم جس پر انڈیا اور ہمیں اعتبار ہو، ہمارے مشترکہ دوست ہوں، یا انٹرنیشنل فورم ہو یا ریجن کے ممالک ہوں، چار پانچ ممالک کا کمیشن بنا کر تحقیقات کروا لیں۔دوسری جانب ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے خواجہ آصف نے کہا بھارت نے ہم پر جنگ مسلط کی تو بھرپور طاقت سے جواب دیا جائے گا، دونوں ممالک کی سرحدوں پر فوجیں کھڑی ہیں، چند روز میں جنگ کا خطرہ ضرور موجود ہے لیکن کشیدگی کم بھی ہو سکتی ہے ۔
اپنے انٹرویو میں یہ نہیں کہاکہ 3 سے 4 روز میں جنگ چھڑ جائے گی، انٹرویو میں مجھ سے جنگ سے متعلق سوال ہوا تھا، میں نے کہا تھا اگلے دو تین دن اہم ہیں،جنگ چھڑ جانے کی بات نہیں کی لیکن خطرہ موجود ہے ،میری بات کو غلط انداز میں پیش کیا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا ہماری تینوں مسلح افواج تیار ہیں، ملک کے ہر انچ کا دفاع کریں گے ۔ پہلگام واقعے پر تحقیقات کی پیشکش کا بھارت کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا، ہم چاہتے ہیں کہ اس معاملے پر بھارت کا جھوٹ بے نقاب کیا جائے ۔ آئی این پی کے مطابق ایک انٹرویو میں وزیر دفاع نے کہا سندھ طاس معاہدے کی معطلی پر ورلڈ بینک سے رابطہ کرینگے ، بھارت نے پلوامہ کے وقت بھی الزامات لگائے لیکن اب تک ثبوت نہیں دئیے ، پلوامہ کے بعد بھارت نے جارحیت کی تو پھر پوری دنیا نے پاکستان کا جواب بھی دیکھا۔ مودی کی گراؤنڈ پر سیاست کمزور ہے اس لیے اس طرح کرتا ہے ، مودی نے جو جال بچھایا تھا خود اس میں پھنس گیا۔بھارت عالمی سطح پر دہشتگردی میں ملوث ہے ، کچھ عرصہ قبل کینیڈا میں سکھ رہنما کو قتل کیا گیا جبکہ امریکا میں بھی سکھ رہنما کو نشانہ بنانے کی کوشش ہوئی۔
وزیر دفاع نے کہا بھارت پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی میں ملوث ہے جسکے ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں، بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کی پشت پناہی بھارت کررہا ہے۔ ایک اور ٹی وی سے گفتگو کرتے خواجہ آصف نے کہا وزیراعلیٰ اور گورنر خیبر پختونخوا کو افغانستان سے آزادانہ ڈیل کی اجازت نہیں دیں گے ۔دفاع اور خارجہ امور کا معاملہ آئین میں بہت واضح ہے ، قانونی و آئینی طور پر افغانستان سے بات چیت کا معاملہ وفاق کا ہے ،اگر وہ چاہتے ہیں آزادانہ طور پر افغانستان سے ڈیل کریں تو وفاق اجازت نہیں دے گا، ایسے عمل کی نہ کوئی قانون اور نہ آئین اجازت دے گا، کوئی اپنی رائے کو وفاق پر مسلط نہیں کر سکتا۔ وزیراعلیٰ اور گورنر کے پی اگر کوئی رائے دینا چاہتے ہیں تو اجلاسوں میں آکر اپنی رائے اور موقف ضرور دیں، وفاقی حکومت کو آکر بتائیں کہ انکے نزدیک اس مسئلے کا کیا حل ہو سکتا ہے۔