امریکی صدر ٹرمپ کشمیر پر کردار ادا کر پائیں گے ؟

امریکی صدر ٹرمپ کشمیر پر کردار ادا کر پائیں گے ؟

(تجزیہ:سلمان غنی) کہتے ہیں کہ بعض شر خیر کا ذریعہ بھی بنتے ہیں، پاکستان کیخلاف بھارتی جارحیت نے جہاں روایتی جنگ کا عدم توازن ختم کر دیا وہاں پاکستان کی علاقائی اہمیت مسلمہ بن گئی اورکشمیر جیسے سلگتے مسئلہ کو پھر سے عالمی حیثیت مل گئی دنیا کو معلوم ہو گیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی ایشو کشمیر ہے جسکے حل ہوئے بغیر خطہ میں استحکام نہیں آ سکتا اور یہی وجہ ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کے خاتمہ کیلئے سرگرم امریکی صدر ٹرمپ کو بھی کہنا پڑا کہ مسئلہ کشمیر کو حل ہونا چاہئے اور یہ کہ میں دیکھتا ہوں کہ اس مسئلے کے حل میں کیا کر سکتا ہوں۔۔۔

 جسکا مطلب ہے کہ خود امریکا کو بھی احساس ہے کہ جنوبی ایشیا کا نیو کلیئر فلیش پوائنٹ کشمیر ہی ہے اور اسے حل کئے بغیر خطہ میں امن و استحکام نہیں آ سکتا لیکن ا ب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا امریکا اس حوالے سے کوئی کردار ادا کر پائے گا کیا بھارت اور مودی سرکار مسئلہ کشمیر پر اپنی ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ پائے گی اور خود پاکستان کیلئے بھی بڑا امتحان ہے کہ وہ کس طرح ڈپلومیسی سے فائدہ اٹھاتا ہے اور عالمی رائے عامہ کو بیدار کر پاتا ہے ۔ ا س حوالے سے جوں جوں وقت گزرتا گیا بھارت وعدوں پر عمل کی بجائے وعدہ خلافی پر گامزن رہا اور کشمیریوں کی آواز کو دبانے اور انہیں دیوار سے لگانے کی پالیسی پر گامزن رہا اور ماضی میں جب بھی پاک بھارت مذاکرات کی کھڑکی کھلی تو اس کا مقصد کبھی سنجیدہ بامعنی اور اخلاص پر مشتمل مذاکرات کا انعقاد نہ تھا اور بعد ازاں مودی برسراقتدار آنے کے بعد مذاکرات پر تیار نہ ہوا الٹا اس نے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہوئے کشمیر کی عالمی حیثیت سے بھی انحراف کیا اور کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے ظلم و بربریت کا بازار گرم کئے رکھا۔ 5 اگست 2019کو مودی سرکار نے بھارتی آئین کے تحت اسکی خصوصی اہمیت کو ختم کر ڈالا اور اسکے دو حصے کر کے اپنا تسلط طاقت کے ذریعہ قائم کرنے کی کوشش کی جو سراسرا اقوام متحدہ کی قراردادوں اور اس حوالے سے عالمی کمٹمنٹ کے منافی تھا لیکن اسکے باوجود کشمیری عوام نے اسے قبول نہیں کیااور جب بھی نریندر مودی سرکار نے اپنے مذموم عمل کے تحت سیاسی مقبولیت کیلئے کوئی ڈرامہ رچایا تو اس کیلئے مقبوضہ کشمیر کو ہی چنا۔

پہلگام کا واقعہ بھی بڑے کھیل کا حصہ تھا لیکن یہ کھیل بھارت کو الٹ پڑا ہے ، جارحیت پر پاکستان کی موثر کارروائی نے بھارتی فوج اور اسکی ایئر فورس کی ذلت و رسوائی کو دنیا بھر میں جگ ہنسائی کا ذریعہ بنا دیا اور اب جب جنگ بندی میں امریکی کردار سامنے آیا ہے تو اسکی بڑی وجہ امریکہ اپنے علاقائی اتحادی کو بچانا اور محفوظ بنانا چاہتا تھا تو دوسری طرف صدر ٹرمپ کی جانب سے کشمیر کاز پر بات نے اس حقیقت کا اعتراف کرا دیا کہ پاکستان اور بھارت میں بنیادی مسئلہ کشمیر ہی ہے اور یہ حل نہیں ہوتا خطہ میں استحکام نہیں آ سکتا لیکن بھارت کشمیر پر اپنے روایتی موقف سے پسپائی اختیار کرے گا تو فی الحال ہر ممکن نظر نہیں آتا اس لئے کہ مسئلہ کشمیر پر کیسی پیش رفت کے بعد بھارت میں ملنے والی آزادی کی سولہ اور تحریکیں بھی جان پکڑیں گی ا ور بھارت کی وحدت کیلئے مسئلہ پیدا ہوگا ،اب معاملات چلیں گے کیسے اس میں بڑا کردار تو امریکا کا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدہ کی بحالی کیلئے تو دباؤ برداشت کرکے کوئی کردار ادا کرنے پر تیار ہو سکتا ہے مگر کشمیر پر اسکی ضد اور ہٹ دھرمی ٹوٹ نہیں پائے گی تو پھر معاملہ میں اگر کوئی کردار ادا کر سکتا ہے تو وہ امریکا اور صدر ٹرمپ ہی ہونگے انکے ماضی کے دور میں پاکستان نے انہیں ثالث مان لیا تھا مگر بھارت نے ضد کا مظاہرہ کیا تھا لیکن اب بھارتی پوزیشن وہ نہیں رہی اور امریکا کو اس حوالے سے کردار ادا کرنا پڑے گا اور خصوصاً پاکستان کیلئے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ صدر ٹرمپ کے بیان کا خیر مقدم ہی کافی نہیں اس موقع کا فائدہ اٹھائے اور ڈپلومیسی کے محاذ کو گرم کئے رکھے اور دنیا کو جھنجھوڑے کہ اس خطہ کا اصل مسئلہ یہی ہے کشمیریوں کو حق خودارادیت دیئے بغیر معاملات آگے نہیں چل سکتے اور اس حوالے سے بھارت کا مکروہ شرمناک اور افسوسناک چہرہ دنیا کے سامنے ایکسپوز کرے اور بتائے کہ یہ بھارت ہے جو کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کئے ہوئے ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں