حکومت اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہتی

حکومت اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہتی

(تجزیہ: سلمان غنی) بھارتی جارحیت کے خلاف اتحاد و یکجہتی اور بھارت کو ہونے والی عبرتناک شکست کے بعد ایک سوال عام ہے کہ سفارتی عسکری محاذ پر بڑی کامیابی کے بعد کیا سیاسی محاذ پر تناؤ کا خاتمہ ہو پائے گا اور قومی سیاست میں جس جنگ بندی کی ضرورت ہے۔

 وہ کیونکر ممکن نہیں ہو پا رہی اور کیا وجہ ہے کہ اپوزیشن کی بڑی جماعت پی ٹی آئی اپنے موقف پر پسپائی کیلئے تیار نہیں اور حکومت جس قومی مفاہمت کی بات کرتی نظر آ رہی ہے اس  پر عملاً پیش رفت کیوں کر نہیں پا رہی ۔اس صورتحال میں جہاں پاکستان کے عوام نے اپنی فوج اور حکومت کا ساتھ دیا وہاں پاکستان کی سیاسی قوتوں نے بھی اس حوالے سے مثبت کردار ادا کیا، لیکن ایک بڑا سوال یہ کھڑا نظر آ رہا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر ہوسکتا ہے تو قومی سیاست میں جو تناؤاور ٹکراؤموجود ہے وہ کیونکر ختم نہیں ہوسکتا اور سیاسی محاذ پر اختلافات جو دشمنی میں تبدیل ہو چکے ہیں انہیں ختم کرنا کیوں ممکن نہیں ،خصوصاً عوام یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی فوج کے دشمن کا گھمنڈ توڑا ہے او رپاکستان پر چڑھ دوڑنے کا اس کا خواب غارت ہو کر رہ گیا ہے ایسی صورتحال میں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اس بڑی فتح کے بعد اس کے ذریعہ ملنے والی سیاسی قوت کو بروئے کار لا کر کیا پاکستان کو معاشی حوالے سے مضبوط بنایا جاسکتا ہے ۔ وزیراعظم شہباز شریف تو اب بھی یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ہم نے ملک کو معاشی حوالے سے خود انحصاری کی منزل پر لے جانا ہے ۔ بانی پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پس پردہ کوئی رابطے چل رہے ہیں لیکن اس حوالے سے شواہد موجود نہیں ۔

اب تو خود پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ایسے رابطوں اور کسی قسم کی پس پردہ ڈیل یا ڈھیل کا کوئی امکان نہیں ۔ یہ خبریں سامنے آئی ہیں کہ بانی صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے خواہاں ہیں لیکن نئی پیدا شدہ صورتحال میں اسٹیبلشمنٹ حکومت کی مرضی کے بغیر اور حکومت اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر کوئی ایک قدم اٹھانے کی بھی روادار نہیں۔ اس ضمن میں دوطرفہ لچک ضروری ہے مگر دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ملک میں پیدا شدہ نئی صورتحال اور خصوصاً بھارت کے مقابلہ میں پاکستان کو ملنے والی بڑی فتح پر بھی تحریک انصاف میں تقسیم ہے ۔ علیمہ خان نے اس امر پر بھی تردید کی کہ بانی سے کسی کے کوئی روابط نہیں ۔ ان کا کہنا تھاکہ مذاکرات و مفاہمت کا اختیار بانی کے پاس ہے پارٹی کے اندر کوئی بھی مذاکرات کی بات کرے تو تسلیم نہیں کریں گے ۔ مطلب کہ پارٹی عملاً دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے ، جیل کے باہر کی قیادت مفاہمت اور اسٹیبلشمنٹ سے ملکر چلنے پر آمادہ ہے جبکہ جیل میں بند لیڈر کوئی لچک دکھانے کو تیار نہیں ۔ بھارت پاکستان کے خلاف جارحانہ حکمت عملی یا جنگی بنیادوں پر آگے بڑھنا چاہتا ہے تو اسے داخلی استحکام کو سیاسی ترجیحات کا حصہ بنانا ہوگا ، یہ وقت سیاسی دشمنیوں یا تلخیوں کا نہیں بلکہ مل کر دشمن کا مقا بلہ کرنے کا ہے ۔پی ٹی آئی سیاسی تاریخ کی واحد جماعت ہے جس نے حکومت کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کو ٹارگٹ کرتے ہوئے خود کو بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے جس سے فی الحال اس کے نکلنے کا امکان نظر نہیں آتا ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں