پاک افغان تعلقات کی بہتری میں چین کا اہم کردار
(تجزیہ: سلمان غنی) پاکستان اور افغانستان کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ میں بہتری کے عمل کو خطہ میں امن و استحکام اور خصوصاً معاشی ترقی کے علاقائی عمل میں اہم پیش رفت کے طور پر لیا جا رہا ہے۔
دوطرفہ تعاون کا یہ عمل خطہ میں مستقل بنیادوں پر امن ترقی اور خوشحالی کا ضامن بن سکتا ہے ۔یہ پاکستان ہی تھا جس نے دنیا میں افغانستان کے حوالے سے یہ کیس پیش کیا تھا کہ افغانستان میں سیاسی تبدیلی کا عمل ہی یہاں امن و استحکام کا باعث بن سکتا ہے اور اس موقف اور خدمات کی بڑی قیمت بھی پاکستان کو اٹھانا پڑی تھی۔ بعض قوتوں کی جانب سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے دہشت گردی کے رحجانات اور خصوصاً اس کیلئے افغان سرزمین کے استعمال نے غلط فہمیوں کو جنم دیا تھا اور پاکستان بار بار افغان انتظامیہ کو صورتحال کے تدارک اور خود افغان سرزمین سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خاتمہ پر زور دیتا رہا لیکن افغان انتظامیہ کی رٹ کے باعث پاکستان کی شکایات کا ازالہ نہ ہوا اور پاکستان نے اس حوالے سے طالبان انتظامیہ پر دباؤ جاری رکھا، دوسری جانب چین بھی اپنے معاشی ایجنڈا کے تحت علاقائی محاذ پر امن کو ناگزیر سمجھتے ہوئے افغانستان میں امن کے حوالے سے سرگرم دکھائی دیا۔
لہٰذا مذکورہ کوششوں اور کاوشوں کے باعث افغان طالبان بھی یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئے کہ اگر افغانستان کا کوئی علاقائی کردار بنانا ہے تو پھر ہمسایہ ممالک سے مل کر چلنا ہوگا اس حوالہ سے نائب وزیراعظم اسحق ڈار کی کوششوں اور کاوشوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جنہوں نے 19اپریل کو کابل کا دورہ کیا اور افغان طالبان کے قیادت سے اپنے مذاکرات میں دوطرفہ ترقی کے عمل کے لئے امن کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی بات کی اور یہ خبریں آئیں کہ کابل اور اسلام آباد میں مذاکرات کا عمل نتیجہ خیز بن رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی چین کے اندر سہ فریقی کانفرنس کا انعقاد بڑی پیش رفت کا باعث بنا اور چین نے پاک افغان حکومتوں کے درمیان ایک ایسے ایجنڈا کو یقینی بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا جس کے تحت دوطرفہ ترقی کے عمل اور خصوصاً علاقائی استحکام کو امن کے قیام سے منسلک کیا اور یہ سہ فریقی کانفرنس ایک بڑی سفارتی پیش رفت کا باعث بنی اور اس میں سی پیک کے عمل میں افغانستان کو بھی شامل کرنے کا اعلان کیا۔
طالبان انتظامیہ کو باور کرایا گیا کہ مضبوط افغانستان امن اور ترقی سے مشروط ہے اور اس حوالہ سے چین اور پاکستان کا کردار اہم ہوگا اس کے ساتھ ہی حال ہی میں افغان طالبان کمانڈر سعید اﷲ سعید کا کابل میں ایک پریڈ سے خطاب اور اس میں فتنہ الخوارج کو دی جانے والی وارننگ کو بھی اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے جس میں انہیں باور کرایا گیا کہ جہاد کی اجازت ریاست کی ذمہ داری ہے لہٰذا کسی کو از خود ایسی کارروائیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی جس سے خود افغان انتظامیہ پر حرف آئے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ دوطرفہ تعلقات کی مضبوطی معاشی ترقی کے عمل،دہشت گردی کے سدباب اور خصوصاً علاقائی سیاست میں باہم جڑے رہنے کا باعث ہوگی اور بھارت جو ماضی میں اپنے علاقائی کردار کے لئے افغان سرزمین کو پراکسی کے طور پر ا ستعمال کرتا آیا ہے اب ایسا ممکن نہیں ہوگا۔ پاک افغان تعلقات کار کا عمل اہم ہے اور اس میں بڑا کردار چین نے ادا کیا ہے کیونکہ چین نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں افغان انتظامیہ بھارت کے ساتھ شریک ہو لہٰذا بروقت سفارتی عمل شروع کر کے اس کی تکمیل کی گئی اور پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں مل کر چلنے کا عزم ظاہر کرتی نظر آ رہی ہیں جو یقیناً بھارت کے لئے ایک اور مایوسی اور شکست ہے ۔