شہباز شریف کا ایرانی صدر سے ٹیلی فون پر رابطہ، آج قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب

اسلام آباد، لاہور(نامہ نگار، اپنے نامہ نگار سے، مانیٹرنگ ڈیسک، نیوزایجنسیاں)وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر مسعود پیزشکیان کو ٹیلی فون کرکے امریکی حملے کی مذمت کی اور برادر ایرانی عوام اور حکومت کے ساتھ پاکستان کی غیر متزلزل یکجہتی کا اعادہ کرتے ہوئے قیمتی جانوں کے ضیاع پر دلی تعزیت کا اظہار کیا اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی جبکہ وزیراعظم نے آج قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کرلیا، اجلاس میں ایران کی حمایت اور دیگر اہم امور پر بڑے فیصلوں کا امکان ہے۔
تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر مسعود پیزشکیان سے گزشتہ روز ٹیلی فون پر بات چیت کی۔ وزیراعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق شہباشریف نے پاکستان کی جانب سے اسرائیل کی بلااشتعال اور بلاجواز جارحیت کے بعد امریکی حملوں کی مذمت کی ۔ وزیر اعظم نے تحفظات کا اظہار کیا کہ امریکی حملوں میں ان تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا جو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے تحفظات کے تحت تھیں،یہ حملے آئی اے ای اے کے قانون اور دیگر بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت ایران کے حق دفاع کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے امن کے لئے فوری طور پر مذاکرات اور سفارت کاری کی ضرورت پر زور دیا اورکہاکہ مذاکرات ہی آگے بڑھنے کا واحدقابل عمل راستہ ہے ۔ وزیر اعظم نے صورتحال کی کشیدگی کو کم کرنے کیلئے فوری اجتماعی کوششوں پر بھی زور دیا اور اس تناظر میں پاکستان کے تعمیری کردار ادا کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔صدر پیزشکیان نے ایران کے عوام اور حکومت کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے پر وزیراعظم، حکومت اور پاکستان کے عوام بشمول عسکری قیادت کا دلی شکریہ ادا کیا۔ شہباز شریف نے ایران پر امریکی حملے کے بعد پارٹی قائد نواز شریف سے ہنگامی رابطہ کیا اورایران پر امریکی حملے کے بعد کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا، وزیراعظم نے نواز شریف سے مشاورت کے بعد ایرانی صدر کو فون کیا اور ایرانی ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملے کی مذمت کی ۔
نوازشریف نے کہا کہ پاکستان جنگ نہیں امن اوردونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا خاتمہ چاہتاہے ، پاکستان خطے میں کشیدگی کے خاتمے کے لئے اقوام عالم سے رابطے میں ہے ۔وزیراعظم نے آج قومی سلامتی کمیٹی کا اہم ترین اجلاس طلب کر لیا جو آج 12بجے وزیراعظم ہاؤس میں ہوگا ۔ اجلاس میں عسکری اور سول قیادت شرکت کرے گی، فیلڈ مارشل عاصم منیر اپنا حالیہ دورہ امریکہ پر شرکا کو اعتماد میں لیں گے جبکہ ایران اسرائیل امریکہ تنازع پر تفصیلی مشاورت ہو گی۔ اجلاس میں ایران کی حمایت اور دیگر اہم امور پر بڑے فیصلوں کا امکان ہے اور ملکی داخلی اور سرحدی سکیورٹی صورتحال کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے ایران کے وزیرخارجہ عباس عراقچی سے ترکیہ میں ملاقات کے دوران اسرائیل اور امریکا کے ایران پر بلاجواز اور غیرقانونی حملوں پر اظہار مذمت کرتے ہوئے ایران کے حق دفاع کی حمایت کے پاکستانی عزم کا اعادہ کیا۔ ایکس پر بیان میں اسحاق ڈار نے کہا کہ ایران کے وزیرخارجہ برادر سید عباس عراقچی سے استنبول میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے 51 ویں وزرائے خارجہ کانفرنس میں غیررسمی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایران میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں،ان حملوں سے خطے اور دنیا بھر میں شہری آبادیوں کے تحفظ کو سنگین خطرہ لاحق ہوگیا ہے ۔ اسرائیلی جارحیت سے عالمی امن کو خطرہ ہے ،امت مسلمہ کو مختلف چیلنجز درپیش ہیں اور درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے امت مسلمہ کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
دفترخارجہ نے اپنے بیان میں ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان نے اپنی فضائی، زمینی یا سمندری حدود کسی بھی امریکی یا اسرائیلی کارروائی کیلئے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے اور نہ ہی دے گا۔ پاکستان نہ صرف ایران کے خلاف اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتا ہے بلکہ سیاسی، سفارتی اور اخلاقی سطح پر ایران کی مکمل حمایت جاری رکھے گا۔ حکومتِ پاکستان اس موقف کا متعدد بار بین الاقوامی فورمز پر جرات مندی سے اعادہ کر چکی ہے ۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کسی بھی غیر ملکی جنگ، بلاک سیاست یا عسکری تنازعے کا حصہ نہیں بنے گا اور اپنا اصولی موقف برقرار رکھے گا کہ ایران کو اپنے دفاع کا مکمل اور جائز حق حاصل ہے ۔ پاکستان تمام متعلقہ فریقین سے مسلسل رابطے میں ہے تاکہ جلد از جلد ایسی جنگ بندی ممکن ہو سکے جو پائیدار، باعزت اور تمام فریقوں کے لیے قابل قبول ہو۔بیان میں پاکستان نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ مشرقِ وسطی کو مزید عدم استحکام اور تباہی کی طرف دھکیلنے کے بجائے امن، استحکام اور مذاکرات کو ترجیح دے، خطے میں بحران کا حل صرف اور صرف اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں اور مقاصد کے مطابق مکالمے اور سفارت کاری کے ذریعے ہی ممکن ہے۔