سینیٹ الیکشن ،حکومت ، اپوزیشن میں بلامقابلہ فارمولہ غیر معمولی
(تجزیہ: سلمان غنی) پختونخوا میں سینیٹ کی گیارہ نشستوں پر انتخاب ہارس ٹریڈنگ کا شکار ہونے کی بجائے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بلامقابلہ فارمولہ کارگر بن گیا ہے۔
جسے موجودہ ملکی حالات میں غیر معمولی قرار دیا جا سکتا ہے اور آج سے چند روز پہلے تک جو جماعتیں ایک دوسرے کی نشستوں پر ہاتھ دھرنے کی پلاننگ کرتی نظر آ رہی تھیں اور خصوصاً پی ٹی آئی کے آزاد اراکین کو ٹارگٹ کیا جا رہا تھا آخر کیا ہوا کہ نہ صرف حکومت اپوزیشن سے ایڈجسٹمنٹ کے لئے تیار ہو گئی بلکہ خود اپوزیشن جماعتیں جو سینیٹ میں اپنے امیدواروں کی کامیابی کے لئے داؤپیچ لڑا رہی تھیں وہ بھی باہمی شیر و شکر ہوتی نظر آئیں اور سب نے اپنا اپنا حصہ حاصل کر لیا لیکن پختونخواکی سطح پر ہونے والی سیٹ ایڈجسٹمنٹ بہت سے سوالات چھوڑ گئی سب سے بڑا سوال یہ کہ پختونخواکی سطح پر سینیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لئے ملنے والے کیا قومی ایشوز پر ایڈجسٹمنٹ کے لئے تیار ہوں گے ۔ پختونخوامیں ہونے والی ایڈجسٹمنٹ کے تحت گیارہ نشستوں پر حکومت کو چھ اور اپوزیشن کو پانچ نشستیں ملیں گی جنرل نشستوں پر حکومت کے حصے میں چار اپوزیشن کے حصے میں تین نشستیں آئیں گی جبکہ ٹیکنو کریٹ کی دو نشستوں پر ایک حکومت ایک اپوزیشن اور خواتین کی ایک ایک سیٹ حکومت اور اپوزیشن کو ملے گی۔
پی ٹی آئی کی جانب سے امیدواروں میں مراد سعید، مرزا آفریدی، فیصل جاوید، پیر نور الحق قادری کامیاب ہوں گے ،اپوزیشن کے امیدواروں میں مولانا عطاالحق درویش طلحہ محمود اور نیاز محمد کامیاب ہوں گے ٹیکنو کریٹ کی نشست پر حکومت کے اعظم سواتی اور اپوزیشن سے دلاور خان کی نشست پر حکومتی امیدوار روبینہ ناز اور اپوزیشن کی روبینہ خالد کامیابی حاصل کریں گی جہاں تک پی ٹی آئی کی اپوزیشن سے ایڈجسٹمنٹ کا سوال ہے تو اس کی بڑی وجہ مشکل حالات میں ان کا اندرونی خوف تھا کہ کہیں پھر سے ان کے ساتھ خصوصی نشستوں والا ہاتھ نہ ہو جائے اور سینیٹ کی یہ نشستیں بھی کوئی اور لے اڑے ۔بڑا سوال یہ ہے کہ پختونخوا کی سطح پر انتخابی ایڈجسٹمنٹ کے بعد کیا پی ٹی آئی احتجاج اور احتجاجی تحریک چلا پائے گی پی ٹی آئی کی اگر ملکی سیاست میں اہمیت پر نظر دوڑائی جائے تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی نہ صرف اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے کے لئے تیار نہیں تھی۔
بلکہ ایڈجسٹمنٹ تو بہت دور کی بات ہے پہلے بھی 5اگست کے احتجاج کے حوالے سے پی ٹی آئی کی پوزیشن کوئی زیادہ بہتر نہیں ہے اور ابھی تک اندرونی بحران کے باعث وہ احتجاجی کیفیت طاری نہ کر سکے اور نظر یہ آ رہا ہے کہ ایڈجسٹمنٹ کے بعد پی ٹی آئی کا سیاسی کیس متاثر ہوگا اور یہ سوالات اٹھیں گے کہ اپنی نشستوں کے لئے تو آپ اپوزیشن سے بات چیت کے لئے تیار ہیں مگر قومی مفاد اور قومی ایشوز پر آپ اہل سیاست سے ڈائیلاگ کے لئے تیار نظر نہیں آتے ،لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی جس کی پہچان احتجاج اور مزاحمت رہی ہے اب آنے والے حالات میں مصلحتوں کا شکار بنتی نظر آ رہی ہے اور اس کا آغاز وزیراعلیٰ پختونخوا کی قیادت میں لاہور میں ہونے والے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے ہوا ہے جس کے لئے انہیں حکومت پنجاب کی جانب سے سازگار ماحول اور فضا ملی اور یہاں وزیراعلیٰ پختونخوا علی امین گنڈاپور نے 5اگست کے احتجاج کے مقابلہ میں احتجاجی تحریک کو نوے روز تک وسیع تر کرنے کا اعلان کر کے احتجاجی کیفیت پر اثر انداز ہونے اور اس کے بعد اب پختونخوا میں ہی ہونے والی سیٹ ایڈجسٹمنٹ نے بھی ثابت کیا ہے کہ وہ انتہا پسندانہ طرز عمل اختیار کرنے کو تیار ہیں ۔ماہرین کا یہی کہنا ہے کہ پی ٹی آئی سیاسی طرز عمل اختیار کئے بغیر سرخرو نہیں ہو سکتی اور انہیں سیاسی آپشنز پر ہی آنا پڑے گا یہی ان کے سیاسی مفاد میں ہے ۔