سینیٹ الیکشن:پی ٹی آئی کیلئے ناراض ارکان کو منانا سیاسی بقا کیلئے ناگزیر

سینیٹ الیکشن:پی ٹی آئی کیلئے ناراض ارکان کو منانا سیاسی بقا کیلئے ناگزیر

(تجزیہ:سلمان غنی) سینٹ الیکشن کے حوالے سے پختونخوا میں حکمران جماعت پی ٹی آئی بحرانی کیفیت سے دوچار ہے اور اپوزیشن سے مل کر اتفاق رائے سے سینیٹرز کے انتخاب کا عمل اور فارمولا بھی ناراض رہنماؤں کے ردعمل کے باعث ڈانوں ڈول ہو چکا ہے۔

ایک طرف پارٹی لیڈر شپ ناراض رہنماؤں کو فیصلوں کی حکم عدولی کی صورت میں تادیبی کارروائی کی دھمکی دے رہی ہے تو دوسری طرف ناراض رہنما نظریاتی امیدواروں کو کھڑا کرنے کے حوالہ سے پرعزم ہیں، ناراض رہنما اگر اپنی امیدواری سے دستبردار نہیں ہوتے تو پھر پی ٹی آئی کو اپوزیشن کے خلاف انتخابی عمل میں جانا پڑے گا اور اس صورت میں پی ٹی آئی کے لئے بڑا اپ سیٹ ہو سکتا ہے اور ایسا کوئی بڑا اپ سیٹ خود گنڈا پور حکومت کے لئے بھی خطرناک بن سکتا ہے ،پی ٹی آئی کے ناراض امیدواروں میں عرفان سلیم، خرم ذیشان،عائشہ بانو شامل ہیں ،پی ٹی آئی کی جانب سے آنے والی پہلی فہرست میں عرفان سلیم کو ٹکٹ دینے کا اعلان کیا گیا تھا،دوسری طرف وزیراعلیٰ گنڈاپور اور بعض دیگر اثر و رسوخ کے حامل افراد کو سینیٹ میں لانے کے لئے سرگرم نظر آئے خصوصاً مرزا آفریدی ،اعظم سواتی و دیگر کے نام سامنے آئے پھر پارٹی کے تنظیمی عہدیداران نے کھل کر ردعمل ظاہر کرنا شروع کر دیا لیکن بانی پی ٹی آئی کی جانب سے حتمی امیدواروں کے اعلان کا انتظار رہا لیکن جب بانی پی ٹی آئی کی جانب سے بھی متنازعہ امیدواروں کا نام سامنے آیا تو پی ٹی آئی کے ورکرز کھلے عام پریس کانفرنس اور مظاہرہ کرتے اور یہ کہتے نظر آ ئے کہ پارٹی کے نظریاتی ورکرز کو لانے کی بجائے اے ٹی ایمز کو نوازا گیا ،اب یہ ورکرز ہر قیمت پر عرفان سلیم کے پیچھے کھڑے نظر آ رہے ہیں ان کا اعلان ہے کہ عرفان سلیم دستبردار نہیں ہوگا البتہ خرم ذیشان اور عائشہ بانو ناراض تو ہیں لیکن وہ ایک حد سے آگے جانے سے گریزاں ہیں اور اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی ایک امیدوار بھی کھڑا رہتا ہے تو پھر سارے عمل کے لئے انتخاب ہوگا اور یہ انتخاب خود پی ٹی آئی کے گلے پڑ سکتا اس لئے کہ اسمبلی میں پچیس تیس اراکین کے حوالہ سے کہا جا رہا ہے کہ ان میں کچھ ناراض ہیں اور کچھ آزاد ہیں اور انتخابی عمل میں وہ پارٹی ڈسپلن کے پابند نہیں رہیں گے لہٰذا پی ٹی آئی کے لئے ناراض اراکین کو منانا اپنی سیاسی بقا کے لئے ناگزیر نظر آ رہا ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں