صوبے کے وزیر اعلی ٰ کو نکالنا آسان، نیا لگانا بہت مشکل کام
(تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعلیٰ پختونخوا علی امین گنڈا پور کی حکومتی کارکردگی اور صوبہ میں امن و امان کے حوالے سے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے تحفظات اور خصوصاً استعفے کی بات نے پی ٹی آئی کے حلقوں میں پریشانی کی لہر دوڑ ا دی ہے۔۔۔
پی ٹی آئی کے ذمہ داران یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ پختونخوا میں علی امین کی حکومت ہماری آخری امید اور پختونخوا ہمارے لئے پناہ گاہ ہے، اگر اس پریشانی کی صورتحال میں پی ٹی آئی کی پختونخواحکومت کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے یا موجودہ وزیراعلیٰ کی تبدیلی کا رسک لیا جاتا ہے تو کیا ہماری حکومت قائم رہ پائے گی ؟ آخر وہ کونسی شکایات ہیں جس بنا پر بانی پی ٹی آئی نے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور سے استعفا دینے کی بات کی ہے ۔ جہاں تک بانی کے گنڈاپور کے حوالے سے تحفظات کا سلسلہ ہے تو اس میں ان کے خلاف چارج شیٹ صوبائی امن و امان یا حکومتی کارکردگی نہیں بلکہ خود بانی کی ریلیف اور رہائی کے لئے انہیں دیئے جانے والے چیلنج میں ناکامی ہے ۔ یہ علی امین ہی ہیں جو اب تک بانی پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ میں رابطے کا ذریعہ رہے ہیں اور اس حوالے سے بھی دو آرا نہیں کہ وزیراعلیٰ نے اپنی لیڈر شپ کی رہائی اور ریلیف کے لئے ایک قابل عمل فارمولہ خود بانی کو مہیا کیا تھا لیکن وہ اس کے لئے تیار نہ تھے بلکہ بروقت وزیراعلیٰ پختونخواکی طرف سے فراہم کرنے والے فارمولے پر خود انہیں اس بنا پر سبکی کا سامنا کرنا پڑا ، جس میں انہیں لیڈر کو اپنے طرز عمل میں تبدیلی لانے کو کہا گیا تھا لیکن وہ ایسا کوئی سیاسی طرز عمل اختیار کرنے کی بجائے ریاستی اداروں کے سربراہان کو ٹارگٹ کرتے سنائی دیتے تھے ۔
واقفان حال کا کہنا ہے کہ علی امین کا انتخاب ہی بانی نے اس بنا پر کیا تھا کہ وہ ان کے قابل اعتبار شخص تھے اور ان کے ذمہ یہی کام لگایا گیا تھا کہ انہیں فیصلہ سازوں سے معاملات طے کروانے ہیں اور اطلاعات یہ ہیں کہ انہوں نے اس ضمن میں کاوشیں کیں لیکن وہ نتیجہ خیز اس لئے ثابت نہیں ہو سکیں کہ شرائط کے جواب میں اڈیالہ سے بھی شرائط آنا شروع ہو گئیں ۔ معاملات توڑ نہ چڑھ سکے اور اس صورتحال میں بانی کی پس پردہ ڈیل یا ڈھیل کے لئے کاوشیں کارگر ثابت نہ ہو سکیں ۔ سارا نزلہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور پر گر گیا لیکن جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ بانی ان سے استعفیٰ طلب کر سکتے ہیں اور کسی اور کو متبادل وزیراعلیٰ بنا سکتے ہیں تو اس مرحلہ پر اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ کسی بھی صوبہ کے وزیراعلیٰ کو کسی جماعت کی لیڈر شپ کی جانب سے نکالنا اور استعفے لینا تو آسان ہوتا ہے لیکن اس کی جگہ کسی دوسرے کو وزیراعلیٰ بنانا بہت مشکل ہوتا ہے اور اس وقت جو خود پختونخوا کے سیاسی محاذ پر صورتحال ہے ، خصوصاً خود پی ٹی آئی کے اندر اختلافات کے حالات ہیں ، اس میں علی امین گنڈاپور کو نکالا تو جا سکتا ہے مگر اپنا نیا وزیراعلیٰ بنانا خود بانی کے لئے بہت مشکل ہو گا ۔
پی ٹی آئی کی لیڈر شپ پختونخوا کی حکومت تبدیل کرنے کا رسک نہیں لے سکتی ویسے تو وزیراعلیٰ کے قریبی ذرائع اس امر کی تردید کرتے نظر آ رہے ہیں کہ بانی نے ان کی حکومت بارے تحفظات کا اظہار نہیں کیا لیکن پارٹی کے ذمہ داران یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ کو پارٹی لیڈر نے جو بھی ٹاسک دیا وہ پورا نہیں کر پائے لہٰذا انہیں خود اپنی کارکردگی پر نظر دوڑانا پڑے گی خود گنڈا پور حکومت میں کرپشن کے الزامات بھی لگاتے نظر آتے ہیں جہاں تک صوبہ میں امن و استحکام کا سوال ہے تو پختونخوا حکومت کو اس ضمن میں ملنے والے سینکڑوں ارب کے فنڈز کی فراہمی کے باوجود وفاق کو مطلوبہ نتائج نہیں مل سکے اور امن و امان بارے اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لئے الٹا وزیر اعلیٰ اس کی ذمہ داری بعض اداروں پر ڈالتے نظر آتے ہیں جس پر وفاق کے شدید تحفظات ہیں اب خود بانی پی ٹی آئی کی جانب سے آنے والے بیان نے بھی امن و امان بارے ان کی کارکردگی کے آگے سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے کیا وزیراعلیٰ علی امین اپنی لیڈر شپ اور صوبہ کے عوام کو مطمئن کر پائیں گے یہ دیکھنا ہوگا۔