پی ٹی آئی اپنے سیاسی وجود کا اعتراف کرانے میں کامیاب
(تجزیہ: سلمان غنی) بانی پی ٹی آئی کی دو سالہ قید کے خلاف تحریک انصاف کی ملک گیر احتجاجی کال کو بڑے پیمانے پر عوامی پذیرائی تو نہ مل سکی، تاہم یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی نے موجودہ مقدمات، مشکلات اور نااہلیوں کے باوجود اپنے سیاسی وجود کا اعتراف کرا لیا ہے ۔
پنجاب، خاص طور پر لاہور میں احتجاجی ماحول بنانے کی کوششیں پختونخوا کے مقابلے میں کمزور رہیں۔ لاہور میں تین مقامات سے ریلیوں کی اطلاعات تو ہیں، مگر ان میں شرکاء کی تعداد درجنوں میں رہی۔ کارکن تو شریک ہوئے ، مگر عوام کی شرکت نہ ہونے کے برابر تھی۔ایک وقت تھا جب پی ٹی آئی ایک مؤثر احتجاجی قوت سمجھی جاتی تھی، اور اس کا مزاحمتی بیانیہ پذیرائی حاصل کرتا تھا، جس کی بڑی وجہ بعض غیر سیاسی قوتوں کی آشیر باد بھی تھی۔ تاہم، تحریکِ عدم اعتماد اور پھر انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کے احتجاجی موڈ کی شدت دم توڑتی نظر آئی۔مسلسل احتجاج اور دباؤ کے نتیجے میں کارکنان تھکن اور مایوسی کا شکار ہوئے ، کیونکہ نہ مقدمات میں کمی آئی اور نہ ہی حکومت میں واپسی کی کوئی سبیل نکلی۔ البتہ سیاسی جماعتوں کا یہ خاصا رہا ہے کہ وہ قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود اپنے وجود کا اظہار کسی نہ کسی طور کرتی ہیں۔تاہم، سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ احتجاج تبھی کامیاب ہوتا ہے جب اسے عوامی تائید حاصل ہو یا طاقتور حلقوں کی خاموش حمایت موجود ہو۔
موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کا احتجاج نہ مؤثر ہے اور نہ ہی کوئی عملی نتیجہ دے رہا ہے ۔اس کی بڑی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ احتجاج کا مقصد عوامی مسائل اور مہنگائی کے خلاف آواز اٹھانا نہیں، بلکہ صرف اپنے قائد کی رہائی کے گرد گھومتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ عوام اس میں شامل نہیں ہو رہے ۔سیاسی حلقے اس پہلو پر بھی بات کر رہے ہیں کہ جب بانی پی ٹی آئی اپنے بچوں کی پاکستان آمد پر احتجاجی تحریک کا حصہ بننے سے گریزاں ہیں تو وہ دوسروں کے بچوں کو احتجاج میں شامل ہونے کا کیوں اور کیسے کہیں گے ؟لاہور میں قابل ذکر مظاہرے شاہدرہ اور ایوانِ عدل کے مقام پر ہوئے ، جہاں سے ریحانہ ڈار سمیت بعض رہنماؤں کی گرفتاری عمل میں آئی، تاہم بعد ازاں ان کی رہائی کی خبریں بھی آئیں۔پنجاب حکومت نے امن و امان کے پیش نظر فورس تعینات کی ہوئی تھی، مگر پولیس کا رویہ نرم رہا۔ عالیہ حمزہ نے اپنی سطح پر تنظیمی تیاری ضرور کی، مگر یہ تیاری زمین پر نظر نہیں آئی۔پختونخوا، جہاں پی ٹی آئی کا ہوم گراؤنڈ ہے ، وہاں احتجاجی سرگرمیوں میں کچھ جوش و خروش دیکھا گیا، مگر وہاں بھی اس احتجاج کی افادیت پر سوالیہ نشان برقرار ہے ۔