ایک گھنٹے میں 10سینٹی میٹر بارش ’بادل کا پھٹنا‘ کہلاتا ہے

ایک گھنٹے میں 10سینٹی میٹر بارش ’بادل کا پھٹنا‘ کہلاتا ہے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں جمعرات کو بادل پھٹنے (کلائوڈ برسٹ) اور تیز بارشوں کے باعث آنے والے سیلابی ریلوں کی زد میں آ کر کم از کم 60 افراد ہلاک اور درجنوں لاپتہ ہوئے ۔

محکمہ موسمیات کی تعریف کے مطابق اگر کسی چھوٹے علاقے (ایک سے دس کلومیٹر کے اندر) میں ایک گھنٹے میں 10 سینٹی میٹر یا اس سے زیادہ شدید بارش ہوتی ہے تو اس واقعے کو ‘بادل کا پھٹنا’ کہا جاتا ہے ۔بعض اوقات ایک جگہ پر ایک سے زیادہ بادل پھٹ سکتے ہیں۔ ایسے میں جان و مال کا بہت نقصان ہوتا ہے جیسا کہ 2013 میں انڈیا کی ریاست اتراکھنڈ میں ہوا تھا لیکن شدید بارش کے ہر واقعے کو بادل پھٹنا نہیں کہا جاتا۔یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صرف ایک گھنٹے میں 10 سینٹی میٹر کی تیز بارش سے زیادہ نقصان نہیں ہوتا لیکن اگر قریب ہی کوئی دریا یا جھیل ہو اور وہ اچانک زیادہ پانی سے بھر جائے تو قریبی رہائشی علاقوں میں زیادہ نقصان ہوتا ہے ۔بادل پھٹنے کا واقعہ ایک سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر چھوٹے پیمانے پر موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔ محکمہ موسمیات ریڈار کی مدد سے کسی بڑے علاقے میں بہت زیادہ بارشوں کی پیشین گوئی کر سکتا ہے ، تاہم یہ بتانا مشکل ہے کہ بادل کس علاقے میں ہو گا۔محکمہ موسمیات کے مطابق ایسی موسمی تبدیلیوں کی پیش گوئی یا نگرانی کے لیے بادل پھٹنے کے خطرے والے علاقوں میں ایک گھنے ریڈار نیٹ ورک کی ضرورت ہوتی ہے یا بہت اعلیٰ ریزولیوشن کے موسم کی پیشن گوئی کے ماڈلز کی ضرورت ہے جو اس طرح کے چھوٹے پیمانے پر ہونے والے واقعات کو پکڑ سکیں۔اگرچہ بادل پھٹنے کا امکان میدانی علاقوں میں بھی ہوسکتا ہے لیکن پہاڑی علاقوں میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کی پہاڑی ڈھلوانیں بادلوں کے اوپر اٹھنے اور تیز بارش کا باعث بننے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتی ہیں۔اس طرح کے واقعات مون سون کے دوران اور اس سے کچھ وقت پہلے زیادہ ہوتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں