شنگھائی کانفرنس :جامع مذاکرات کی تجویز خطے میں خوشحالی کی کنجی قرار

 شنگھائی کانفرنس :جامع مذاکرات کی تجویز خطے میں خوشحالی کی کنجی قرار

(تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم پر جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے جامع مذاکرات کی پیشکش کو اس کی ضرورت، اہمیت اور ٹائمنگ کے تناظر میں حقیقت پسندانہ اور موثر قرار دیا ہے۔

اس پیشکش کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ پاکستان علاقائی سطح پر ترقی و خوشحالی کا خواہاں ہے ، اور یہ عمل سازگار ماحول، امن و امان سے مشروط ہے، جس کے لیے تمام فریقین کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔وزیراعظم نے اپنے خطاب میں علاقائی مسائل، خصوصاً امن و استحکام، ماحولیاتی تبدیلی، دہشت گردی کے خاتمے ، افغانستان میں امن، سی پیک کا مستقبل اور معاشی اصلاحات پر زور دیا۔ انہوں نے نہ صرف مسائل کی نشاندہی کی بلکہ ان کا حل بھی پیش کیا۔ تاہم سب سے اہم نکتہ جنوبی ایشیا میں جامع مذاکرات کی تجویز تھی، جسے اس خطے میں استحکام اور خوشحالی کی کنجی قرار دیا جا سکتا ہے ۔یقیناً پاکستان کی اس پیشکش کو اہم ممالک سراہیں گے ، مگر اصل سوال یہ ہے کہ جامع مذاکرات ممکن کیوں نہیں ہو پاتے اور اس میں رکاوٹ کہاں ہے ؟ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ بھارت کو بامقصد مذاکرات کی دعوت دی اور باہمی تنازعات کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کیں، مگر ہر بار بھارت نے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگا کر مذاکرات سے راہِ فرار اختیار کی۔حالیہ پہلگام واقعے پر بھارتی الزامات کے جواب میں پاکستان نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحقیقات اور تعاون کی پیشکش کی، مگر بھارت نہ خود تحقیقات پر آمادہ ہوا اور نہ کسی عالمی ادارے پر اعتماد کا اظہار کیا۔ یہی وہ موقع تھا جب پاکستان کے موقف کو دنیا میں پذیرائی ملی اور بھارت کے طرز عمل پر سوالات اٹھے ۔

اس واقعے کے بعد جب جنگ کی کیفیت پیدا ہوئی، تو پاکستان سرخرو ہوا، جبکہ بھارت کو عالمی سطح پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔اب ایک بار پھر پاکستان بات چیت اور جامع ڈائیلاگ کی بات کر رہا ہے ، جو اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان علاقائی مسائل، خصوصاً کشمیر اور دہشت گردی جیسے حساس موضوعات پر بیٹھ کر بات چیت کا خواہاں ہے ۔ اگر بھارت اس پر آمادہ نہیں ہوتا، تو عالمی سطح پر پاکستان کے موقف کو ضرور سراہا جائے گا اور بھارت کے طرز عمل پر سوالات اٹھیں گے ۔ شہباز شریف نے اس فورم پر بھارت کا نام لیے بغیر دہشت گردی کے مسائل کو جرات سے اٹھایا اور بتایا کہ خیبر پختونخوا، بلوچستان، اور خصوصاً جعفر ایکسپریس کے واقعے میں جو عناصر ملوث ہیں، ان کے بارے میں ہمارے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کو اس کا نوٹس لینا ہوگا، کیونکہ جب تک دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوگا، ہم ترقی کی راہ پر آگے نہیں بڑھ سکتے ۔وزیراعظم نے افغانستان میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کے کردار اور خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک اچھے ہمسائے اور شراکت دار کے طور پر افغانستان سے تعلقات چاہتا ہے اور ہمارا مثبت کردار سب کے سامنے ہے ۔شنگھائی کانفرنس میں وزیراعظم کا یہ خطاب بروقت، مو ثر اور قومی جذبات کا مظہر قرار دیا جا سکتا ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں