لاہور ہائیکورٹ: نیٹ فلیکس، ایمازون ریگولیشن کی درخواست خارج

 لاہور ہائیکورٹ: نیٹ فلیکس، ایمازون ریگولیشن کی درخواست خارج

لاہور (محمد اشفاق سے ) لاہور ہائیکورٹ نے نیٹ فلیکس اور ایمازون پر ایک ویڈیو سمیت دیگر ویب سائٹس پر آنے والی فلموں کو سینسر بورڈ کے تحت بنائے گئے قوانین کے ذریعے ریگولیٹ کرنے کی درخواست خارج کر دی۔

جسٹس راحیل کامران شیخ نے قرار دیا کہ نیٹ فلیکس، ایمازون اور دیگر پلیٹ فارمز پر لاکھوں گھنٹوں کا مواد اپ لوڈ ہوتا ہے اور ہر گھنٹے نیا مواد شامل کیا جاتا ہے ۔ اتنے بڑے پیمانے پر مواد کو نشر ہونے سے پہلے سینسر کرنا ناممکن ہے اور اس حوالے سے کوئی قانون بھی موجود نہیں۔20 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ درخواست گزار کی استدعا، کہ سائٹس کو موشن پکچرز آرڈیننس 1979 کے تحت ریگولیٹ کیا جائے ، قانون کے  مطابق نہیں۔ فیصلے میں لکھا گیا کہ موشن پکچرز آرڈیننس ڈیجیٹل دور سے پہلے کا قانون ہے ، جس کا مقصد صرف سینما میں چلنے والی فلموں کو اسکرین پر آنے سے پہلے کنٹرول کرنا اور عوام کو صاف ستھرا مواد فراہم کرنا تھا۔ سوشل سائٹس اس آرڈیننس کے زمرے میں نہیں آتیں کیونکہ آرڈیننس کے وقت ایسی سائٹس موجود ہی نہیں تھیں۔جسٹس راحیل کامران شیخ نے فیصلے میں مزید لکھا کہ 18ویں ترمیم کے بعد سینسر بورڈ کا اختیار صوبوں کو منتقل ہوگیا، ہر صوبے نے اپنا موشن پکچرز ایکٹ بنایا اور ترامیم کیں، لیکن کسی صوبے نے سوشل سائٹس کو اس کے دائرہ کار میں شامل نہیں کیا۔ اگر قانون ساز ایسا چاہتے تو ترمیمی ایکٹس میں اس کا ذکر لازمی ہوتا۔فیصلے میں کہا گیا کہ نیٹ فلیکس، ایمازون پرائم اور دیگر سوشل سائٹس مختلف انداز میں آپریٹ کرتی ہیں اور ڈیمانڈ بیسڈ کنٹینٹ فراہم کرتی ہیں۔ اینٹی اسٹیٹ یا مذہبی تعلیمات کے خلاف مواد کو ہٹانے کا اختیار پی ٹی اے کے پاس موجود ہے ، تاہم پیکا ایکٹ کے تحت اتھارٹی خود سے غیر قانونی مواد حذف نہیں کر سکتی بلکہ اکثر اوقات ویب سائٹ ہی بلاک کرنا پڑتی ہے ۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ دنیا بھر میں تشویش کا باعث ہے ۔عدالت نے مؤقف اپنایا کہ درخواست ناقابلِ سماعت ہے اور اس لیے مسترد کی جاتی ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں