خیبر پختونخوا:دہشتگردی کے پیچھے سیاسی ومجرمانہ گٹھ جوڑ:فرد واحد دہشتگردی کو صوبے میں واپس لایا سیاست ریاست سے بڑ ی نہیں ،ہر مسئلے کا حل بات چیت نہیں:ترجمان پاک فوج
دہشتگردوں کے سہولت کاروں کیلئے تین راستے :1۔وہ خود دہشتگرد کو ریاست کے حوالے کرے 2۔ ریاست کیساتھ ملکر ناسور کو ختم کرے 3۔یہ دونوں کام نہیں کرنے تو ایکشن کے لیے تیار رہیں افغان سرزمین کو پاکستان کیخلاف دہشتگردی کیلئے استعمال کیا جار ہا ،ثبوت موجود ،عوام کی حفاظت کیلئے ضروری اقدامات کیے جاتے رہیں گے ،افغانستان میں 4مقامات پر فضائی حملوں کے سوال پر جواب تمام سیاسی جماعتیں اور رہنما قابل احترام ، اگر کوئی پارٹی یا شخص سمجھتا ہے اسکی سیاست اس ریاست سے بڑی ہے تو یہ قبول نہیں :ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کی پشاور میں پریس کانفرنس
پشاور(اے پی پی،دنیا نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک) پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے فتنہ الخوارج کے سہولت کاروں کو خبردار کیا ہے کہ خارجیوں کو ریاست کے حوالے کر دیں یا نتیجے کے لئے تیار رہیں، خارجی دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے لیے زمین تنگ کردی جائے گی،خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے پیچھے سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے جس کا خمیازہ خیبرپختونخوا کے عوام بھگت رہے ہیں،فرد واحد دہشت گردی کو صوبے میں واپس لایا،کسی فرد واحد کو اپنی ذات کے لیے ریاست اور پاکستانی عوام کے جان، مال اور عزت کا سودا کرنے کی اجازت دی نہیں جاسکتی ،سیاست ریاست سے بڑی نہیں،ہر مسئلے کا حل بات چیت نہیں ہوتی۔ وہ جمعہ کو کور ہیڈ کوارٹرز پشاور میں اہم پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے ۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا اس پریس کانفرنس کا مقصد صوبہ خیبرپختونخوا میں سکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لینا ہے ۔ میرے یہاں آنے کا مقصد خیبرپختونخوا کے غیور عوام کے درمیان بیٹھ کر دہشتگردی کے خلاف جنگ کا احاطہ کرنا ہے ۔اس کے ساتھ خیبر پختونخوا کے غیور عوام کی اس جنگ میں قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے . میں یہاں افواجِ پاکستان کی جانب سے تجدید عزم کرنے آیا ہوں کہ ہم سب نے مل کر خیبر پختونخوا کے عوام کی مدد سے من حیث القوم دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہے ۔
انہوں نے کہا گزشتہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے پاکستان بالعموم اور خیبر پختونخوا بالخصوص دہشتگردی کے ناسور سے نبرد آزما ہے جس میں ہزاروں معصوم شہریوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، انٹیلی جنس ایجنسیز، افواجِ پاکستان، پولیس اور ایف سی کے جوانوں نے اپنے خون سے پاکستان کی دھرتی کو سینچا ہے ۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے خیبر پختونخوا میں کائونٹر ٹیررازم کی مد میں جاری آپریشن کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا 2024 کے دوران خیبر پختونخوا میں مجموعی طور پر 14 ہزار 535 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کئے گئے ۔ روزانہ کی بنیاد پر کئے گئے آپریشنز کی تعداد 40 کے لگ بھگ ہے ۔ 2024 کے دوران ان آپریشنز میں 769 دہشتگردوں کوہلاک کیا گیا ۔ خیبر پختونخوا میں ان آپریشنز کے دوران 577 قیمتی جانوں نے شہادت نوش کی جن میں پاک فوج کے 272 بہادر آفیسرز و جوان،پولیس کے 140 جبکہ 165 معصوم شہری شامل ہیں۔ انہوں نے کہا 2025 میں 15 ستمبر تک 10 ہزار 115 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کئے گئے ۔اس دوران 917 دہشتگردوں کو مارا جا چکا ہے ان آپریشنز میں 516 قیمتی جانوں نے جام شہادت نوش کیا جن میں پاک فوج کے 311 بہادر آفیسرز و نوجوان، پولیس کے 73 جبکہ 132 معصوم شہری شامل ہیں۔
انہوں نے کہا اگر 2021 سے واقعات میں اضافہ ہوا ہے تو رسپانس میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ رواں سال جو خارجی مارے گئے ان کی تعداد گزشتہ دس سالوں میں سب سے زیادہ ہے ۔ انہوں نے کہا دہشتگرد سندھ اور پنجاب میں کیوں اپنا نیٹ ورک نہیں پھیلا سکے کیونکہ سندھ اور پنجاب میں گورننس ہے ،انکی فورسز نے خوارج کو روک رکھا ہے جبکہ دوسری طرف خیبر پختونخوا ہے جہاں گورننس نام کی چیز نہیں، جہاں دہشتگردوں کو خود لا کر بسایا جاتا ہے انکی سہولت کاری کی جاتی ہے ۔ اگر آپریشن کریں تو مخالفت کی جاتی ہے ،صوبائیت کا رنگ دے کر گھٹیا سیاست کی جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا ہم اپنی سکیورٹی کی بھیک کسی دوسرے ملک سے نہیں مانگ سکتے ۔سکیورٹی داخلی معاملہ ہے ۔ انہوں نے کہا اس ملک کیلئے بہت قربانیاں دی گئی ہیں اور یہ رائیگاں نہیں جائیں گی۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا 2014 میں سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا شروع کیا اور ایک پر امن خیبرپختونخوا کے خواب کی تکمیل کے قریب پہنچ گئے مگر بدقسمتی سے خیبرپختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو سپیس دی گئی، یہاں گورننس اور عوامی فلاح و بہبود کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا جس کا خمیازہ آج تک خیبرپختونخوا کے بہادر اور غیور عوام اپنے خون اور اپنی قربانیوں کے ذریعے بھگت رہے ہیں۔ انہوں نے کہا صرف 2024 اور 2025 میں پاکستان میں ہلاک کیے جانے والے افغانیوں کی تعداد 161 بنتی ہے اس کے علاوہ افغانستان کی سرحد سے دخل اندازی کرنے والے 135 خارجی مارے گئے جبکہ 2 سال میں خود کش حملے کرنے والے 30 حملہ آوروں میں افغان شہری تھے یہ اعداد و شمار افغانستان کو بھارت کے دہشت گردی کے بیس کیمپ کے طور پر عیاں کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے گٹھ جوڑ کو مکمل مقامی اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہے ۔ ترجمان پاک فوج نے کہا سانحہ اے پی ایس کے بعد تمام سیاسی جماعتیں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں پشاور میں بیٹھیں اور ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کیا جسے نیشنل ایکشن پلان کا نام دیا گیا اور تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا کہ اگر دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو ان نکات پر کام کرنا ہے ۔ انہوں نے بتایا 2021 میں پچھلی صوبائی حکومت نے جن نکات پر کام ہوچکا تھا انہیں خارج کرکے 14 نکات پر مشتمل نظرثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا اور تمام سیاسی عمائدین ، سیاسی جماعتوں اور اس وقت کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے فیصلہ کیا کہ اگر دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو ان 14 نکات پر کام کرنا ہے ۔انہوں نے کہا موجودہ حکومت نے بھی اسی ایکشن پلان کو وژن عزم استحکام کا نام دیا۔ انہوں نے کہا دہشت گردی کی اولین وجہ یہ ہے کہ ان نکات پر عمل نہیں ہورہا۔ انہوں نے کہا صرف خیبرپختونخو امیں سکیورٹی ایجنسیاں یومیہ 40 سے زیادہ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کررہی ہیں ، اس سال ہم نے 900 سے زیادہ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا؟ کیا ہمارے شہدا اس بات کی گواہی نہیں دے رہے کہ پہلے نکتے پر کام ہور ہا ہے ۔ باقی 13 نکات کا بھی احاطہ کرلیا جائے کہ ان پر کیا کام ہورہا ہے ۔ انہوں نے کہا دوسرا نکتہ تھا کہ میڈیا، سوشل میڈیا اور سیاستدان یک زبان ہوکر دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہوں گے ، تمام سیاسی عمائدین اور سیاسی جماعتیں 2014 سے اس بات پر متفق ہیں کیا ہم اس بیانیے پر کھڑے ہیں؟۔
ترجمان نے سوال کیا کہ کیا آپ کو یہ آواز نہیں آتی کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کرلیے جائیں، کیا ہم اس نیشنل ایکشن پلان پر عمل کررہے ہیں؟ ۔کیا ہر مسئلے کا حل بات چیت ہے ؟۔ اگر ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہے تو جب 6 اور 7 مئی کو بھارت نے پاکستان پر میزائل مارے ، معصوم بچوں، خواتین، مدرسوں اور مساجد کو شہید کیا تو اس ملک کے عوام نے یہ کیوں نہیں کہا کہ اگلے دن بات چیت کرلیتے ہیں؟۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا آپ کے عمائدین نے فیصلہ کیا تھا ہم بیانیہ بنائیں گے مگر گمراہ کن بیانیہ بنایا جاتا ہے ۔ ہم نے نہیں ہمارے سیاستدانوں، تمام صوبائی حکومتوں نے کہا اگر دہشت گردی کو ختم کرنا ہے ، دہشت گردی اور جرائم کے گٹھ جوڑ کو توڑنا ہے ، غیرقانونی کاروباروں، منشیات، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے ناسور سے اپنے خطے کو پاک کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا جب قانون نافذ کرنے والے ادارے ان ناسوروں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو ان عناصر کی پشت پناہی کے لیے مختلف سیاسی اور مقامی سطح سے آوازیں آتی ہیں، فیصلہ تو آپ نے کیا تھا کہ اس کو ختم کیے بغیر دہشت گردی ختم نہیں ہوسکتی۔
دہشت گردی اور غیرقانونی کاروبار کے گٹھ جوڑ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے پیچھے غیرقانونی کاروبار کا گٹھ جوڑ ہے ، منشیات کے 10 ہزار 87 کیسز میں سے صرف 679 مجرموں کو سزا ہوئی جبکہ غیرقانونی ہتھیاروں کے 33 ہزار 389 مقدمات میں صرف 6 ہزار 945 مجرموں کو سزا ہوئی۔ انہوں نے کہا 2014 اور 2021 میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ صوبے میں دہشت گردی کو ختم کرنا ہے تو محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی)کو مضبوط کرنا ہے مگر اس وقت سی ٹی ڈی خیبرپختونخوا کی آپریشنل صلاحیت 3200 جوانوں پر مشتمل ہے ، دہشت گردی آپ کے سامنے ہے ،کیا یہ تعداد کافی ہے ؟۔ انہوں نے کہا ہم خیبرپختونخوا کی بہادر پولیس اور سی ٹی ڈی کو سلام پیش کرتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان میں مدارس کے اندراج کا فیصلہ ہوا تھا مگراب تک صوبے میں 4 ہزار 355 تقریبا ً55 فیصد مدارس کا اندراج ہوسکا ہے ابھی اندراج ہی مکمل نہیں ہوسکا تو نصاب ایک کرنا اور اس کے اوپر نگرانی کرنا تو الگ بات ہے ۔ انہوں نے کہا اگر سوال یہ ہے کہ دہشت گردی ختم کیوں نہیں ہورہی تو ان سوالات کا جواب بھی دیں۔ ترجمان نے کہا یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ افغانوں کو واپس بھیجنا ہے تو آج یہ بیانیہ کہاں سے آگیا کہ ان کو واپس نہیں بھیجنا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کیا آپ 2014 اور 2021 میں غلط تھے اور جب افغانستان میں امن آچکا ہے اور وہاں کوئی قابض افواج نہیں تو کئی دہائیوں تک افغان بھائیوں کی مہمان نوازی کرنے والی ریاست انہیں واپس جانے کا کہتی ہے تو اس پر سیاست کی جاتی ہے ، اس پر بیانیے بنائے جاتے ہیں اور گمراہ کن باتیں کی جاتی ہیں۔ ترجمان پاک فوج نے کہا دوحہ معاہدے میں کہا گیا کہ افغان سرزمین نہ صرف امریکا بلکہ خطے میں بھی کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ انہوں نے خیبرپختونخوا میں آپریشنز کے دوران مارے گئے خارجیوں سے برآمد امریکی ہتھیاروں کی تصاویر بھی دکھائیں۔انہوں نے کہا پچھلے 3 ماہ میں دہشت گردی کے 3 ہزار 984 واقعات پیش آئے ان میں سے 70 فیصد خیبرپختونخوا میں کیوں پیش آئے ؟ یہ بڑا منطقی سوال ہے ، جو نوجوان اور سوشل میڈیا بھی کرتا ہے ، دہشت گردی کے یہ واقعات پنجاب اور سندھ میں کیوں نظر نہیں آتے ؟۔ انہوں نے کہا سندھ اور پنجاب میں دہشت گردی نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ نہیں کہ دہشت گرد ان صوبوں میں کام نہیں کرنا چاہتے اور اپنے نظریات کی وہاں ترویج نہیں چاہتے ، نہیں اسکی قطعی یہ وجہ نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان صوبوں میں گورننس قائم ہے ، وہاں کی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے قائم ہیں اور وہاں پر سیاست اور دہشت گردی کا گٹھ جوڑ کام نہیں کررہا، ہمارے اس عظیم صوبے خیبر پختونخوا میں بجائے اس کے دہشت گردی کو کارکردگی،گورننس اور قانون کی عملداری سے ختم کیا جائے اسے صوبائیت کا رنگ دیاجارہا ہے اور اس پر سیاست کی جارہی ہے ۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ بذات خود ایک مجرمانہ عمل نہیں ہے کہ گورننس، کارکردگی، صلاحیت، استعداد کار ، سی ٹی ڈی کے جوانوں کی تعداد کو بڑھانے ، عدالتی نظام کو مضبوط بنانے اور غیرقانونی مقیم افغانوں کو واپس افغانستان بھیجنے کے بجائے ایک کنفیوژن اور ابہام پیدا کیا جائے ۔ انہوں نے کہا انہی وجوہات کی بنیاد پر آرمی چیف واضح طور پر کہہ چکے ہیں گورننس کے خلا کو پاک فوج اور پولیس کے افسر ، جوان، بچے اور ہمارے ادارے اپنے خون سے پر کررہے ہیں۔ ترجمان نے سوال کیا اگر گورننس کے خلا کو پر نہیں کرنا اور متفقہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں کرنا تو پھر خیبرپختونخوا کو دہشت گردی کے ناسور سے کیسے چھٹکارا ملے گا؟۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے واضح کیا ریاست پاکستان کے انسداد دہشت گردی آپریشنز کے حوالے سے جو جھوٹا، فرضی اور من گھڑت بیانیہ بنایا جارہا ہے اور شہدا اور افواج پاکستان اور پولیس کی قربانیوں کی جو تضحیک کی جاتی ہے یہ سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ کے مذموم عزائم کی عکاسی کرتی ہے ، خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے پیچھے یہی سیاسی و مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے ۔ انہوں نے کہا ہم واضح کرنا چاہتے ہیں پاکستانی عوام کی سکیورٹی کسی دوسرے ملک بالخصوص افغانستان کو رہن نہیں کی جاسکتی، صرف ریاست، افواج پاکستان اور اس کے قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی عوام کی سلامتی کے ضامن ہیں۔ ترجمان نے واضح کیا فوج اور اس کے اداروں کو کسی سیاسی شعبدہ بازی سے پریشان نہیں کیا جاسکتا، ریاست اور اس کے عوام کو کسی فرد واحد کی خواہش کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاسکتا ۔
کسی فرد واحد کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنی ذات اور اپنے مفاد کے لیے پاکستان اور خیبرپختونخوا کے غیور اور باعزت عوام کے جان، مال اور عزت آبرو کا سودا کرے ۔ انہوں نے کہا افواج پاکستان آئین اور قانون کے مطابق خیبرپختونخوا میں داخلی سلامتی کے فرائض انجام دے رہی ہیں جس کی بنیادی ذمہ داری صوبائی اور مقامی انتظامیہ کی ہے ، ہم امید کرتے ہیں بجائے منفی سیاست، الزام تراشی اور جرائم پیشہ مافیا کی سہولت کاری کے آپ اپنی اس بنیادی ذمہ داری پر توجہ دیں گے ۔ ہم یہ بھی امید کرتے ہیں آپ خیبرپختونخوا کے غیور عوام کی حفاظت کے لیے افغانستان سے سکیورٹی کی بھیک مانگنے کے بجائے اس صوبے کے ذمہ دار ہوتے ہوئے خود اس کی حفاظت کریں گے جو نہ صرف خیبرپختونخوا کے عوام کا حق ہے بلکہ آپ کا فرض ہے ۔ ترجمان نے کہا افواج پاکستان یہ بات بھی واضح کرنا چاہتی ہیں کہ خارجی دہشت گرد اور ان کے سہولت کار چاہے وہ کوئی بھی ہو اور کسی بھی عہدے پر ہو اس کے لیے زمین تنگ کردی جائے گی کیونکہ پاکستانی قوم سیسہ پلائی دیوار بنیان مرصوص کی طرح دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کھڑی ہے اور کھڑی رہے گی اور ہمارے شہدا کا خون کبھی رائیگاں نہیں جائے گا۔لیفٹیننٹ جنرل احمدشریف چودھری نے کہا کہ ہم یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اب سٹیٹس کو نہیں چلے گا، جو شخص یا گروہ اپنی مجبوری یا کسی فائدے کی وجہ سے خارجیوں کی سہولت کاری کررہا ہے اس کے پاس 3 راستے ہیں۔1۔ اول یہ کہ وہ خود ان خارجیوں کو ریاست کے حوالے کردے ۔ 2۔
یا پھر وہ دہشت گردی کیخلاف کارروائیوں میں ریاست کے اداروں کے ساتھ مل کر اس ناسور کو اپنے انجام تک پہنچائے تاکہ معصوم عوام کو نقصان نہ ہو۔ 3۔ تیسرا راستہ بتاتے ہوئے انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر یہ دونوں کام نہیں کرنے تو پھر خارجیوں کے سہولت کار ہوتے ہوئے ریاست پاکستان کے بھرپور ایکشن کے لیے تیار ہوجائیں۔ ترجمان نے صوبے کے شہدا کی تصاویر دکھاتے ہوئے رندھی ہوئی آواز میں کہا یہ اس دھرتی کے وہ بہادر ہیں جنہوں نے آپ کے لیے جان دی ہے ، ان کی شہادتوں اور ان کی قربانیوں پر کسی کو سیاست کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ انہوں نے کہا پاکستان زندہ باد رہے گا اور خیبرپختونخوا زندہ باد رہے گا، اس حقیقت کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی ہتھیاروں کے دہشت گردوں کے ذریعے استعمال ہونے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا ضروری نہیں یہ ہتھیار اور سامان فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان ہی استعمال کریں، یہ سامان اور ہتھیار کہیں بھی استعمال ہوسکتا ہے ۔ خود امریکی حکومت بھی فکرمند ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات بھی رپورٹ ہوئے ہیں جس میں ان کا کہنا ہے کہ ان ہتھیاروں اور سامان کو واپس لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا یہ فیصلہ کرنا افغانستان کی حکومت کاکام ہے کہ وہ غیرریاستی عناصر کی سرپرستی جاری رکھنا چاہتی ہے یا نہیں ہمارا کام انہیں اپنا پیغام پہنچادینا ہے اور وہ ہم زبانی اور عملی طور پر کررہے ہیں۔ ہم بالکل واضح ہیں کہ ہم نے ان سے کیسے نمٹنا ہے ۔
نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہم سب جانتے ہیں چیزیں کیسے تبدیل ہوں گی، چیزیں اس وقت تبدیل ہوں گی جب ہم میں یکجہتی ہوگی اور ہم نیشنل ایکشن پلان پر عمل کریں گے ، ہم بارہا کہہ چکے ہیں دہشتگردوں سے پوری قوم نے لڑنا ہے ۔ انہوں نے کہا جو سیاسی شعبدہ بازی کرتے ہیں ان کا گریبان پکڑیں اور ان سے پوچھیں کہ تم ہماری جان، عزت اور مال سے کیوں کھیل رہے ہو اور دہشت گردی کے بیانیے کو کیوں سپورٹ کر رہے ہو۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا دہشتگردی ایسے ختم ہوگی کہ ہم دہشتگرد اور اس کے سہولت کار کو ایک برابر جانیں جو دہشتگردوں کی سہولت کاری کر رہا ہے اور اس نے اسلحہ اپنے گھر میں رکھا ہوا ہے تو اس میں اور دہشتگرد میں کیا فرق ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا سیاسی حکومت کبھی یہ کہتی ہے کہ بات چیت سے مسئلہ حل ہوجائے اور کبھی کہتی ہے کہ کابل کے آگے جھکنے سے مسئلہ حل ہوجائے گا، تو یہ ان کے بیانیے کا بڑا چھوٹا سا حصہ ہے ، جو دہشتگردوں کا سہولت کار مارا گیا اس سہولت کار کے لواحقین کو پیسے دے کر اس کا رتبہ بڑھانا حکومت کیلئے بہت آسان ہے ۔ انہوں نے کہا آپ گورننس اور کرپشن پر بات کیوں نہیں کرتے کیونکہ ہر لمحہ ان کے بیانیے کی بنیاد صرف سکیورٹی مسائل پر ہے ۔
باقی صوبے دہشتگردی کے خلاف جنگ کیلئے این ایف سی کا ایک فیصد دے رہے ہیں یہاں سے نہیں دیا جارہا وہ کہاں جا رہا ہے ، ترقیاتی منصوبوں پر کام نہیں ہورہا، عوام کے لیے کام ہونا چاہیے تھا، کیوں نہیں ہوا، یہاں 40 ارب روپے کی کرپشن ایک پسماندہ ضلع میں درمیانے درجے کے ٹھیکیدار کے پاس سے نکل آئی، اس پر آپ نے سوال نہیں اٹھانا تاکہ دہشتگردی کے اوپر بیانیہ کنفیوژن میں رکھا جائے ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا آپ کو کوئی یہ نہیں بتائے گا کہ افغانستان کے ساتھ طویل سرحد پر دوسری طرف سے ہماری فوج کو انگیج کرکے دہشتگردوں اور سمگلروں کو سرحد پار کرائی جاتی ہے ۔افغانستان میں نور ولی محسود کی ہلاکت کے حوالے سے اس سوال پر کہ افغانستان سے یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ پاکستان نے 4 مقامات پر سڑائیک کیے ہیں اور مفتی نور ولی محسود مارا گیا ہے جس پر جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا میں یہ واضح کر چکا ہوں کہ افغانستان آپریشن بیس کے طور پر پاکستان کے خلاف دہشتگردی کرنے کے لیے استعمال کیا جار ہا ہے ، اس کے ثبوت بھی موجود ہیں۔ان کا کہنا تھا پاکستان کے عوام کے جان و مال کی حفاظت کرنے کے لیے جو ضروری اقدامات کیے جانے چاہئیں وہ کیے جائیں گے اور کیے جاتے رہیں گے ۔
انہوں نے کہا جھوٹ اور کنفیوژن پر مبنی بیانیہ کیلئے سوشل میڈیا کو وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے چنانچہ ہم سب کو منفی پروپیگنڈے کے خلاف یک زبان ہوکر کھڑے ہونا ہوگا اور جھوٹ اور غلاظت سے بھری ہوئی سیاست سے اپنے آپ کو دور کرنا پڑے گا، ہمارے پاس اس کے سواکوئی چوائس نہیں ہے اور ہم یہی کریں گے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا نیشنل ایکشن پلان کے چودہ نکات پر جو عمل نہیں کرنا چاہ رہے ان کے اپنے ذاتی، مالی اور سیاسی فوائد ہیں، ہمارے جوان اور افسر کسی ذاتی یا مالی فائدے کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے لیے گولی کھاتے ہیں، اگر ہم نے ایک آزاد، غیرت مند اور خود دار قوم کی حیثیت سے جینا ہے تو پھر چوائس ایک ہی ہے اور وہ یہی ہے کہ ہم نے دہشتگردوں، ان خوارج اور ان کے سہولت کاروں سے لڑنا ہے اور اس ناسور کو ختم کرنا ہے ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک سوال کے جواب میں کہا ہم ریاست کا ادارہ ہیں ہمارے لیے تمام سیاسی جماعتیں اور تمام سیاسی رہنما قابل احترام ہیں لیکن اگر کوئی پارٹی یا کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کی سیاست اس ریاست سے بڑی ہے تو یہ ہمیں قبول نہیں ۔
انہوں نے کہا پاکستان کے آئین کے مطابق ملک میں جمہوریت ہے ، اور ہمارے لیے یہ انتہائی قابل احترام نظام ہے اور اسی میں پاکستان کا مستقبل ہے ، اسی جمہوری نظام کے اندر سے ہی ملک نے خود کو بہتر کرنا ہے اور آگے بڑھنا ہے ، ہم ایک ریاستی ادارے کے طور پر کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی سیاست کے لیے استعمال نہ کریں، ہم ریاست اور عوام کے لیے جان دیتے ہیں ہم کسی کی سیاست کی جنگ نہیں لڑتے ۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا جب تک سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ کے ذریعے دہشتگردی کو باقی رہنے کے لیے سہارا دیا جاتا رہے گا، ہمارے جوان شہید ہوتے رہیں گے ، اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک پاکستان کے عوام ان کے گمراہ کن سیاسی پروپیگنڈے کو سامنے رکھ کر ان سے سوال نہیں کرتے ، جب تک آپ ان چودہ نکات پر پوری طرح عمل نہیں کرتے ، یہ سلسلہ اس وقت تک چلے گا جب تک ہم یہ نہیں جان لیتے کہ پاکستان کے تحفظ کے ضامن ہم خود ہیں۔