علی امین کے استعفے کی تصدیق کیوں ضروری سمجھی گئی،بحث شروع

علی امین کے استعفے کی تصدیق کیوں ضروری سمجھی گئی،بحث شروع

صدر یا وزیر اعظم کے استعفے کی تصدیق آئینی تقاضا نہیں تو وزیراعلیٰ کیلئے شرط کیوں ؟ کئی سوالات اٹھنے لگے ،بلاول کی گورنرکوہدایت میں تاخیر سے پیپلزپارٹی کوخفت کاسامنا

اسلام آباد (سہیل خان)پاکستان کی سیاسی تاریخ میں صدور اور وزرائے اعظم کے استعفوں کی کبھی باقاعدہ تصدیق نہیں ہوئی، مگر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کے استعفیٰ کی تصدیق اور اس پر عملدرآمد نے کئی سوالات کو جنم دے دیا ، اس اقدام نے مختلف سیاسی  جماعتوں کو نہ صرف دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا بلکہ بعض نے آئینی اور قانونی پہلوؤں پر غور کرنے کے بجائے جلد بازی سے سیاسی نقصان بھی اٹھایا ۔تحریک انصاف کی سیاسی حکمت عملی کو دیکھتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے بھی ا کے گورنر کو ہدایات دینے میں تاخیر کی، جس سے پیپلزپارٹی کو خفت کا سامنا کرنا پڑا اگر پیپلزپارٹی کسی ماہر قانون سے بروقت مشورہ کرلیتی تو صورتحال مختلف ہوتی ، شہراقتدار کے سیاسی اور جمہوری حلقوں میں اب بھی اس بات پر بحث جاری ہے کہ علی امین گنڈاپور کے استعفیٰ کی تصدیق کیوں ضروری سمجھی گئی، جبکہ ماضی میں صدر پرویز مشرف، وزرائے اعظم میر ظفراللہ جمالی اور چودھری شجاعت حسین کے استعفے بغیر کسی تصدیق کے قبول کر لئے گئے تھے ،علی امین کا استعفیٰ گورنر کو ارسال کیا گیا، جس کی کاپی سپیکر کو بھیجی گئی اور نئے قائد ایوان کے انتخاب کا شیڈول بھی جاری کر دیا گیا۔

اس عمل میں خیبرپختونخوا کی اپوزیشن جماعتیں ابتدا سے ہی تذبذب کا شکار نظر آئیں ،اس سے قبل 2007 میں متحدہ مجلس عمل نے قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفے د ئیے جو چند گھنٹوں میں اُس وقت کے سپیکر چودھری امیر حسین نے منظور کر لئے تھے ،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ استعفے کی تصدیق میں کسی اور فریق کی رضامندی ضروری نہیں، مگر اب علی امین گنڈاپور کے معاملے میں اس تصور کو ختم کیا جا رہا ہے ۔اسی دوران اسد قیصر کی قیادت میں ایک وفد نے گورنر فیصل کنڈی سے ملاقات کر کے تعاون کی درخواست بھی کی، جو اس سیاسی عمل کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے ۔علی امین کے استعفے اور سہیل آفریدی کے بطور وزیراعلیٰ حلف اٹھانے سے ایک نئی آئینی مثال قائم ہوئی ، سوال یہ ہے کہ اگر صدر یا وزیر اعظم کے استعفے کیلئے تصدیق آئینی تقاضا نہیں تو وزیراعلیٰ کیلئے یہ شرط کیوں عائد کی گئی؟ آئین کی متعلقہ شق سے واضح ہوتا ہے کہ استعفیٰ موصول ہونے پر اسے حتمی تصور کیا جائے ۔مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو بھی اپنے رویے کا جائزہ لینا چا ہئے ، یہی میثاق جمہوریت کا تقاضا ہے ، 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی خودمختاری کی دعویدار جماعتیں اگر بروقت مشورہ کر لیتیں تو انہیں سیاسی نقصان نہ اٹھانا پڑتا ،اس تمام عمل نے پی ٹی آئی کی مقبولیت میں اضافہ کیا ، اپوزیشن جماعتیں غیر ارادی طور پر اس کی تقویت کا باعث بن گئیں ،آئندہ ایسی آئینی صورت حال میں غلطی کی گنجائش نہیں ہونی چا ہئے ، کیونکہ سیاسی فیصلوں کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں