حسینہ واجد کو سزائے موت: 1400 مظاہرین کو ہلاک کرنے کی مجرم قرار سابق وزیر داخلہ کو بھی پھانسی کی سزا، سابق آئی جی وعدہ معاف گواہ، حسینہ کی حوالگی کیلئے بھارت سے رابطہ

حسینہ واجد کو سزائے موت: 1400 مظاہرین کو ہلاک کرنے کی مجرم قرار سابق وزیر داخلہ کو بھی پھانسی کی سزا، سابق آئی جی وعدہ معاف گواہ، حسینہ کی حوالگی کیلئے بھارت سے رابطہ

عدالت کے باہر عوام کا جشن ، پولیس کی شیخ مجیب کا بچا کھچا گھر گرانے کا مطالبہ کرنیوالے مظاہرین سے جھڑپیں ،سابق وزیر داخلہ روپوش ، فیصلہ تاریخی ، عوام امن قائم رکھیں :محمد یونس کچھ سکون ملا :جماعت اسلامی، مقدمہ منصفانہ ٹرائل کے معیار پر پورا نہیں اترا :اقوام متحدہ ، حسینہ کی ملک میں ممکنہ واپسی یا سیاسی کردار کا امکان اب مزید کم ہو گیا :تجزیہ کاروں کی رائے

ڈھاکا (نیوز ایجنسیاں )بنگلہ دیش میں عدالت نے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو ‘انسانیت کے خلاف جرائم’ کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنادی ،3رکنی ٹربیونل نے شیخ حسینہ واجد کے خلاف مقدمات کا 453 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا،ان پرگزشتہ سال طلبہ کے احتجاجی مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دینے کا الزام تھا، اقوام متحدہ کے مطابق ان مظاہروں کے دوران 1400 افراد ہلاک ہوگئے تھے ،فیصلہ سناتے ہی عدالت کے باہر موجود افراد نے جشن منایا اور قومی پرچم لہرائے ۔ اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے شیخ حسینہ بھارت میں موجود ہیں اور اس کیس کا فیصلہ ان کی غیر حاضری میں سنایا گیا۔ فیصلے کی براہ راست نشریات قومی ٹی وی چینلز پر دکھائی گئیں۔

شیخ حسینہ نے ڈھاکہ عدالت کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے متعصبانہ اور سیاسی بنیادوں پر سنایا جانے والا فیصلہ قرار دیا ،انہوں نے ای میل بیان میں کہا کہ یہ سزا عبوری حکومت کے اندر موجود انتہا پسند عناصر کی قاتلانہ نیت کو ظاہر کرتی ہے ۔بنگلہ دیش میں اس کیس کیلئے قائم انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سابق وزیراعظم شیخ حسینہ، سابق وزیر داخلہ اسد الزمان خان کمال اور سابق آئی جی پولیس عبداللہ المامون کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات ثابت ہوچکے ہیں۔ عدالت میں کیس کے تین ملزموں میں سے صرف سابق آئی جی پولیس چودھری عبداللہ المامون موجود تھے جو صحت جرم قبول کر کے سلطانی گواہ بن گئے تھے ۔ انہیں پانچ سال قید کی سزا ملی۔ سابق وزیر داخلہ اسد الزمان خان کمال روپوش ہیں،ان کوبھی موت کی سزا سنادی گئی۔

یہ فیصلہ بنگلہ دیش کی تاریخ میں کسی رہنما کے خلاف سب سے سخت سزا ہے ۔نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں قائم عبوری حکومت نے اس فیصلے کو تاریخی قرار دیا مگر ساتھ ہی عوام سے امن و سکون برقرار رکھنے کی اپیل کی۔فیصلے کے بعد بنگلہ دیشی وزارتِ خارجہ نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ حسینہ اور سابق وزیرِ داخلہ اسدالزماں خان کمال کو ملک بدر کرے ، جنہیں اسی مقدمے میں سزائے موت سنائی گئی ہے ۔ بھارت نے کہا کہ وہ معاملے پر تعمیری رابطہ رکھے گا۔فیصلے سے قبل پولیس کی اُن مظاہرین سے جھڑپیں ہوئیں جو حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمٰن کے باقی ماندہ گھر کو بھی گرانے کا مطالبہ کررہے تھے ۔پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کو دارالحکومت سمیت مختلف بڑے شہروں میں تعینات کردیا گیا۔

اقوام متحدہ کی ترجمان روینا شامداسانی نے کہاکہ شیخ حسینہ کو انسانیت کے خلاف جرائم کی سزا سنائی جانے والی سزا متاثرین کیلئے اہم لمحہ ہے لیکن انہیں موت کی سزا نہیں سنائی جانی چاہئے تھی،انہوں نے خدشات کا اظہار کیا کہ ملزم کی غیر حاضری میں یہ مقدمہ منصفانہ ٹرائل کے معیارات پر پورا نہیں اترا،ہمیں سزائے موت کے نفاذ پر افسوس ہے ، جس کی ہم ہر حال میں مخالفت کرتے ہیں ۔جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنماؤں نے ردعمل میں کہاکہ اس فیصلے سے متاثرہ خاندانوں کے دلوں کوکچھ تسکین ہوئی ہے ۔عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق اس فیصلے کے سیاسی اثرات گہرے ہوں گے اور حسینہ کی ملک میں ممکنہ واپسی یا سیاسی کردار کا امکان اب مزید کم ہو گیا ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں