پی ٹی آئی خواجہ رفیق کی برسی پر پیغام کو اپنے لئے غنیمت سمجھے
اب ان کے پیچھے تھپکی ہے اور نہ ہی انہیں کسی اور فورس کی آشیرباد حاصل
(تجزیہ:سلمان غنی)
خواجہ رفیق فاؤنڈیشن کے زیراہتمام خواجہ رفیق شہید کی برسی کے موقع پر یہ روایت رہی ہے کہ جہاں اس تقریب میں خواجہ رفیق شہید کی جمہوریت کیلئے جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے وہاں تقریب کو بامقصد اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے مختلف جماعتوں کے ذمہ داران ،سول سوسائٹی کے نمائندوں اور جماعتوں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے ۔ پہلی مرتبہ تقریب میں مختلف جماعتوں کے رہنماؤں اور دانشوروں نے ملک کو تناؤ اور دباؤ سے نکالنے کیلئے ملک میں سیاسی قیادت کے درمیان ڈائیلاگ اور آئین پاکستان کے تحت ایک بھرپورسیاسی معاہدہ کی ضرورت پر زور دیا اور کہا پی ٹی آئی خواجہ رفیق شہید کی برسی کے موقع پر سامنے آنے والے پیغام کو بھی اپنے لئے غنیمت سمجھے ۔ لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ سیاسی محاذ پر ڈیڈ لاک کیوں ہے ، کس کی وجہ سے ہے اور اس کا خاتمہ کیسے ممکن ہے اور ڈائیلاگ کے عمل کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری کس پر ہے ۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پچھلے چند سالوں سے سیاست میں انتہا پسندی ، الزام تراشی اور گالم گلوچ کی سیاست نے سیاسی محاذ پر تناؤ پیدا کر رکھا ہے اور افسوسناک امر یہ ہے کہ اس صورتحال میں بہتری کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی اور آج حالات اس نہج پر ہیں کہ دوسرے کا کردار تسلیم کرنے پر کوئی تیار نہیں اور اپنی اپنی حکومتوں میں ایک دوسرے کو دیواروں سے لگانے کی پالیسی پر کاربند نظر آتے ہیں اور اس کا بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ اس کے اثرات پاکستان کی جوان نسل پراچھے نہیں پڑے اور سیاست اور جمہوریت مضبوط ہونے کے بجائے کمزور ہوئی،یہ اعزاز مسلم لیگ ن میں شہباز شریف ، ایاز صادق کے ساتھ وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اﷲ اور خصوصاً سعد رفیق کو حاصل رہا کہ وہ مختلف اوقات میں اپوزیشن سے ڈائیلاگ کی ضرورت پر زور دیتے نظر آئے ۔ اب خواجہ رفیق شہید کی برسی کے موقع پر ڈائیلاگ اور مکالمہ کی بات کو بروقت بامقصد اور سنجیدہ قرار دیا جاسکتا ہے ۔
مطلب یہ کہ اہل سیاست نے اس پر سوچ بچار شروع کر دیا ہے کہ تناؤ اور ٹکراؤ سیاست کیلئے اچھا نہیں اور جمہوریت کا مستقل ڈائیلاگ کے ساتھ ہی وابستہ ہے لیکن اس ضمن میں پیش رفت کیسے ہوگی کون کون بڑا کردار ادا کرے گا۔ تقریب میں سعدرفیق نے اس ضمن میں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کا نام تجویز کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس ملک کے سینئر سیاستدان ہیں ،انہیں آگے بڑھنا چاہئے اب بھی اگر سیاسی محاذ پر نظر دوڑائی جائے تو نواز شریف ہی قومی مفاہمت اور سنجیدہ ڈائیلاگ میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن کیا وہ کریں گے ، یہ اہم سوال ہے اس لئے کہ جن سے ڈائیلاگ کی بات ہو رہی ہے کیا وہ پارٹی بھی مذاکرات یا مکالمہ میں سنجیدہ ہے ۔ اچکزئی ، مولانا فضل الرحمن کی سیاست سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر وہ ڈائیلاگ کی شخصیات ہیں وہ مل کر بیٹھنے اور سوچ وبچار سے مسائل کے حل کا راستہ نکالنا چاہتے ہیں مگر آج سیاست کا اہم فریق بانی پی ٹی آئی ہیں اور ان کی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو سیاست میں خود پسندی کے قائل ہیں ،ان کا بعض سیاستدانوں سے مذاکرات کے بجائے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات پر زورہے ۔ افسوسناک یہ امر ہے کہ یہ تجربہ دونوں کیلئے اچھا نہیں رہا۔
ریاست کو اپنے مفادات دیکھنا تھے لیکن جب انہوں نے وزیراعظم کو آئین قانون اور ریاست کا پابند بنے نہ دیکھا تو اس پر سے ہاتھ اٹھا لیا اور اس عمل کا جواب اس وزیراعظم نے پاکستان کی مقتدرہ اور ریاستی اداروں کو کیسے دیا وہ اب ڈھکا چھپا نہیں۔ رانا ثناء اﷲ خان کا کہنا ہے کہ کیا اگلی پارٹی اپنے طرز عمل میں تبدیلی لانے کو تیار ہے ۔محمود خان اچکزئی مذاکرات کی بات کرتے نظر آ رہے ہیں اور دوسری جانب بانی کی بہن سے وزیراعلیٰ پختونخوا فیصل آفریدی کو بانی کا پیغام دیا گیا کہ تحریک پاور کے استعمال کی تیاری کرو اور وہ اسلام آباد کے ہوٹلوں میں جا کر لوگوں سے ملتے اور ان کے جذبات ابھارتے نظر آئے ۔صورتحال کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ سیاست میں تناؤ کے خاتمہ کیلئے سیاسی قوتوں کے درمیان ڈائیلاگ کی تحریک تو موجود ہے مگر تناؤ اور ٹکراؤ کے ذمہ دار عناصر کیا ڈائیلاگ کے خواہاں ہیں ،اس حوالہ سے فیصلہ حکومت کو نہیں اپوزیشن اور خصوصاً پی ٹی آئی کو کرنا ہے ۔بلاشبہ ان کے پاس ووٹ بینک ہے مگر ان کی احتجاجی اور مزاحمتی صلاحیت کو زنگ لگ چکا ہے اس لئے کہ اب ان کے پیچھے تھپکی ہے نہ انہیں کسی اور فورس کی آشیرباد حاصل اور نہ ہی وسائل ہیں،وہ اپنی طاقت کو بروئے کار لاتے ہیں جو نتیجہ خیز نہیں ہوتی اور مستقبل قریب میں اس کے آثار بھی نہیں ۔