اماراتی صدر کا دورہ، پچھلے معاہدوں پر پیشرفت پر بھی بات ہوگی
محمد بن زاید کے دورہ کی جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں بازگشت سنائی دیگی
(تجزیہ:سلمان غنی)
متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زاید النہیان کے دورہ اسلام آباد کو اپنی ٹائمنگ اور اثرات کے حوالہ سے نہایت اہم قرار دیا جا رہا ہے ۔ ان کی اسلام آباد آمد پاکستان کی ریاستی سمت اور استحکام پر اعتماد کا مظہر ہے ۔ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے کہ جب پاکستان دفاعی اعتبار سے خود انحصاری کی منزل عبور کرنے کے بعد معاشی خود انحصاری کی منزل کی جانب گامزن ہے اور اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کیلئے مطلوبہ ماحول، اقدامات اور اصلاحات کی جانب گامزن ہے ، لہٰذا ایک ایسے وقت میں کسی اہم عالمی اتحادی کا بیان آنا ایک مضبوط سفارتی سگنل سمجھا جا رہا ہے۔
حکومت کی جانب سے اپنے معزز مہمان کے استقبال کیلئے اسلام آباد میں غیر معمولی انتظامات نظر آ رہے ہیں ۔ اس شاندار استقبال کے ذریعہ پاکستان یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ پاکستان اپنے دوست ممالک اور خصوصاً خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو انتہائی سنجیدگی اور عزت کی نگاہ کے ساتھ دیکھتا ہے۔ خلیجی ممالک کیلئے بھی میسج ہے کہ پاکستان خطے میں بیلنس اور شراکت داری چاہتا ہے ۔سعودی عرب سے پاکستان کے دفاعی حوالہ سے ہونے والے معاہدہ کے بعد امارات سے معاشی تعلقات کو اہمیت دی جا رہی ہے ،پاکستان کے حق میں اسے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
دورہ کو اس لئے بھی اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے کہ آج پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ اور سول حکومت کے درمیان مکمل یکسوئی، سنجیدگی اور ہم آہنگی ہے ۔ اماراتی صدر شیخ محمد زاید کے دورہ کے شیڈول کے مطابق ان کی صدر آصف علی زرداری ،وزیراعظم شہباز شریف، فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر سمیت اعلیٰ سول شخصیات سے ملاقات بھی شیڈول میں شام ہے ، ان ملاقاتوں میں دوطرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں کا جائزہ ،علاقائی اور عالمی امور پر بھی تبادلہ خیال ہوگا۔اماراتی صدر کا زبردست استقبال اس بات کی بھی علامت ہے کہ ریاست ایک پیج پر ہے اور خارجہ محاذ پر واضح سمت رکھتی ہے ۔کہا جا رہا ہے کہ یہ دورہ کسی ایک حکومت کی کامیابی نہیں بلکہ ریاستی تسلسل کا اظہار ہے اور اس مرحلہ پر اصل امتحان دوطرفہ معاہدوں پر دستخط ہیں بلکہ ان پر عمل درآمد ہوگا اور پچھلے معاہدوں پر پیشرفت پر بھی بات ہوگی۔
دورہ کے حوالہ سے ماہرین کی رائے ہے کہ اماراتی صدر اور پاکستان کی لیڈر شپ کے درمیان غزہ پر ہونے والے امن معاہدہ اور اس پر پیش رفت پر بھی غور ہوگا۔ اس حوالہ سے دونوں ممالک ایک دوسرے کو اعتماد میں لیں گے ۔ ماہرین کے مطابق یہ دورہ غزہ پر ہونے والے معاہدہ پر پیش رفت میں بھی معاون بنے گا ۔دورہ کے حوالہ سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے اعلیٰ سطح کے دورے کسی ایک حکومت یا شخصیت کا کارنامہ نہیں ہوتے بلکہ یہ ریاستی اداروں کی ہم آہنگی کا مظہر قرار پاتے ہیں اور جب سول حکومت، عسکری قیادت اور خارجہ پالیسی ساز ادارے ایک صفحے پر ہوں تو تبھی ایسے دورے ممکن بنتے ہیں۔دوسری جانب خلیجی ممالک بھی اب ایڈ کی بجائے ٹریڈ اور اصلاحات کے مواقع اور گورننس کو دیکھتے ہیں، اس لئے ماہرین خارجہ سرمایہ کاری کے عمل کو سیاسی استحکام سے جوڑتے نظر آتے ہیں۔
ان کے نزدیک یہ دورہ ایک مثبت اور سنجیدہ قدم ہے مگر اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے پالیسی کا سگنل ناگزیر ہے۔ یو اے ای پاکستان کو ہمیشہ ایک قابل اعتماد سکیورٹی پارٹنر سمجھتا رہا، لاکھوں پاکستانی ورکرز آج بھی یو اے ای میں تعمیرات، ٹرانسپورٹ، تعلیم اور صحت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور اربوں ڈالرز کا زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں۔بعض ماہرین کے خیال میں دورہ اسلام آباد کے اثرات صرف دوطرفہ تعلقات تک محدود نہیں ہوں گے بلکہ پورے جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں اس کی بازگشت سنائی دے گی اور پاکستان خصوصاً خلیج کی سیاست میں ایک قابل اعتماد پارٹنر کے طور پر دیکھا جائے گا ۔