پنجاب کی ترقیاتی ورکنگ پارٹی کو10ارب سے زائد کے منصوبوں کی منظوری کا اختیار تفو یض
پہلے 10ارب سے بڑے منصوبے منظوری کیلئے وفاق کو بھیجتے تھے ،پالیسی میں تبدیلی کی کابینہ سے بذریعہ سرکولیشن منظوری ترقیاتی ورکنگ پارٹی کے قیام کا نوٹیفکیشن،نعیم رئوف سربراہ، تاخیر ختم:پنجاب حکومت،چیک اینڈ بیلنس نہیں رہے گا:ماہرین
لاہور(محمد حسن رضا سے )پنجاب حکومت نے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری کا نیا طریقہ کار نافذکرتے ہوئے صوبائی ترقیاتی ورکنگ پارٹی کو 10ارب روپے سے بھی زائد کی منظوری کا اختیار دے دیا ۔تفصیلات کے مطابق پنجاب حکومت نے صوبے میں ترقیاتی منصوبوں کی منظوری سے متعلق ایک انتہائی اہم اور دور رس اثرات رکھنے والی تبدیلی نافذ کر دی۔ صوبائی کابینہ کی بذریعہ سرکولیشن منظوری کے بعد جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے تحت اب 10ارب روپے سے زائد لاگت کے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری بھی صوبائی سطح پر دی جا سکے گی، جبکہ ماضی میں ایسے تمام بڑے منصوبے وفاقی فورم سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی کو بھجوائے جاتے تھے۔
جہاں مالی، تکنیکی، انتظامی اور معاشی ہر پہلو سے منصوبوں کا تفصیلی جائزہ لیا جاتا تھا اور متعدد مواقع پر وفاقی فورم نے صوبوں کی جانب سے بھیجے گئے منصوبوں میں ترامیم کیں، لاگت کم کروائی یا بعض منصوبوں کو مکمل طور پر مسترد بھی کر دیا۔ تاہم اب پنجاب حکومت نے وفاق میں منصوبے نہ بھیجنے کا فیصلہ کرتے ہوئے تمام اختیارات صوبائی سطح پر مرکوز کر دئیے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد پنجاب میں ترقیاتی منصوبوں کی منظوری کا نیا طریقہ کار باضابطہ طور پر نافذ ہو گیا ہے اور سابقہ ترقیاتی منظوریوں سے متعلق تمام پرانے نوٹیفکیشنز کو منسوخ کر دیا گیا ہے ۔ حکومت پنجاب نے صوبائی ترقیاتی ورکنگ پارٹی کے قیام کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ، جسے اب صوبے میں پبلک سیکٹر سرمایہ کاری سے متعلق تمام منصوبوں کی جانچ اور منظوری کا اختیار حاصل ہو گا۔ کمیٹی کے سربراہ محکمہ ترقیاتی و منصوبہ بندی کے چیئرمین ڈاکٹر نعیم رئوف ہوں گے جبکہ سیکرٹری محکمہ ترقیاتی و منصوبہ بندی رفاقت نسوانہ کمیٹی کے سیکرٹری مقرر کئے گئے ہیں۔
کمیٹی میں سیکرٹری زراعت افتخار ساہو، سیکرٹری فنانس مجاہد شیر دل، سیکرٹری مواصلات سہیل اشرف سمیت ٹرانسپورٹ، ماحولیات اور داخلہ کے سیکرٹریز بھی شامل ہوں گے ۔ اس کے علاوہ پلاننگ، ڈیویلپمنٹ اور اربن یونٹ کے ماہرین کو بھی کمیٹی کا حصہ بنایا گیا ہے ۔ کمیٹی ترقیاتی منصوبوں کے مالی و تکنیکی پہلوؤں کا مکمل جائزہ لے گی ۔کمیٹی کے پاس غیر ملکی فنڈنگ کے بغیر منصوبوں کی منظوری کا اختیار ہوگا ترقیاتی منصوبوں کے تحت گاڑیوں اور پیکیجز کی منظوری بھی کمیٹی کے دائرہ اختیار میں ہوگی ۔کمیٹی منصوبہ بندی اور عملدرآمد کے دوران رہنمائی فراہم کرسکے گی۔ ناقدین کے مطابق یہ فیصلہ صوبے کو انتظامی خودمختاری تو دیتا ہے ، مگر اس کے ساتھ چیک اینڈ بیلنس کا وہ وفاقی فلٹر بھی ختم ہو گیا ہے جو بڑے منصوبوں میں بے ضابطگیوں کو روکنے کا ذریعہ بنتا تھا۔ بعض ماہرین معیشت اور گورننس ایکسپرٹس کا کہنا ہے یہ فیصلہ بظاہر انتظامی رفتار بڑھانے کے لیے کیا گیا ہے ، مگر اس کے نتیجے میں اربوں اور کھربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری صرف صوبائی فورم تک محدود ہو گئی ہے ۔ جب منصوبے وفاق میں جاتے تھے تو وہاں مختلف وفاقی وزارتوں، پلاننگ کمیشن اور آزاد ماہرین کی رائے شامل ہوتی تھی، جو ایک اضافی حفاظتی دیوار کا کردار ادا کرتی تھی۔
اب اس نظام کے خاتمے کے بعد خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سیاسی ترجیحات تکنیکی معیار پر حاوی ہو سکتی ہیں، لاگت بڑھانے یا مخصوص ٹھیکیداروں کو فائدہ دینے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں، بڑے منصوبوں میں شفافیت اور غیر جانبدار جانچ متاثر ہو سکتی ہے ، اہم امر یہ بھی ہے کہ اتنی بڑی پالیسی تبدیلی کو کابینہ سے سرکولیشن کے ذریعے منظور کروایا گیا، جس میں نہ تو عوامی سطح پر کوئی بحث ہوئی اور نہ ہی صوبائی اسمبلی میں اس پر تفصیلی غور کیا گیا۔ مبصرین کے مطابق ایسے فیصلے جن کے اثرات آئندہ کئی برسوں تک صوبے کے مالی ڈھانچے پر مرتب ہوں، انہیں زیادہ شفاف اور کھلے فورمز پر زیر بحث لانا ضروری تھا۔ ماہرین کا مزید کہنا ہے تمام افسران وزیراعلیٰ کے ماتحت ہوتے ہیں، اور جو ہدایات دی جاتی ہیں یہ سب ان کو من و عن منظور کر لیتے ہیں، یہ کیسے کسی منصوبے پر اعتراض اٹھا سکتے ہیں، جبکہ وفاق میں بیٹھے افسران کسی صوبے کے ملازم نہیں ہوتے وہ آزادانہ رائے بھی دے سکتے ہیں اور جہاں ٹیکنیکل کے مسائل ہوں یا فنڈز کے بے دریغ استعمال سے متعلق بات چیت ہو یا منصوبے پر اعتراض ہو وہ اس پر کھل کر رائے دے سکتے ہیں۔دوسری جانب حکومت پنجاب کا مؤقف ہے کہ اس فیصلے سے ترقیاتی منصوبوں میں تاخیر ختم ہو گی اور صوبہ اپنی ضروریات کے مطابق تیز فیصلے کر سکے گا۔