ڈیمارش قانونی انتباہ نہیں، ریاستی سنجیدگی کا مظہر

ڈیمارش قانونی انتباہ نہیں، ریاستی سنجیدگی کا مظہر

برطانوی حکومت کیلئے پاکستان کے مکتوب کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی

(تجزیہ:سلمان غنی)

بریڈ فورڈ میں ہونے والے احتجاج ا ور اس میں پاکستان کے چیف آف ڈیفنس سروسز کے حوالہ سے خطرناک عزائم کے اظہار پر پاکستان کی جانب سے برطانیہ کے قائم مقام ہائی کمشنر کو بلا کر دئیے جانے والے ڈیمارش کو غیر معمولی اور سنجیدہ قرار دیا جا سکتا ہے جس میں برطانوی سرزمین پر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں کی نشاندہی کرتے ہوئے برطانیہ سے اس صورتحال کا نوٹس لینے اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ برطانیہ اس حوالہ سے شرپسند عناصر کو قانون کے مطابق جوابدہ ٹھہرائے گا ۔لہٰذا اس امر کا تجزیہ ضروری ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ برطانوی سرزمین پر بعض عناصر کسی دوسری ریاست بارے مذموم ایجنڈا پر گامزن سرگرم نظر آتے ہیں اور ان کی ان سرگرمیوں کا نوٹس نہیں لیا جا رہا ۔بلاشبہ میزبان ملک کے آزادی اظہار کی آڑ میں کسی ریاست کی سلامتی کو چیلنج کرنا بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے مگر سفارتکاری میں ثبوت اور فالو اپ فیصلہ کن ہوتے ہیں اور برطانیہ جیسا ملک قانونی معیار ثبوت پر کارروائی کرتا ہے اور اب پاکستان نے شواہد پر مبنی دستاویزات اور ویڈیو فراہم کر دی ہیں جس میں ایک سیاسی جماعت کے آفیشل شواہد پر مبنی دستاویزات اور ویڈیو موجود ہیں ۔برطانیہ اس حوالہ سے شرپسندوں کے خلاف کارروائی کا پابند ہے اور اب جبکہ پاکستان کی جانب سے باضابطہ احتجاج کا عمل سامنے آیا ہے تو برطانیہ کو اس سفارتی دباؤ کو نظر انداز کرنا مشکل ہوگا ۔

اب بھی پاکستان کی جانب سے دئیے جانے والے ڈیمارش کو میزبان ریاست کی جانب سے نظر انداز کرنے کی گنجائش موجود نہیں اور پاکستان کی جانب سے بریڈ فورڈ کا مظاہرہ اور اپنی عسکری قیادت کو ٹارگٹ کرنے کا عمل اس کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔ ڈیمارش کی اہمیت و حیثیت کو دیکھا جائے تو یہ کسی بھی دوسری ریاست کو کسی بھی مسئلہ پر اعتراض ،وضاحت یا تنبیہ سمیت کسی بھی خاص واقعہ پر ان کی توجہ مبذول کرانا اور اس کے نوٹس کے لئے توجہ دلانا ہوتا ہے ۔ بظاہر یہ قانونی یا عدالتی فیصلہ نہیں ہوتا لیکن دوسری ریاست اس سے صرف نظر نہیں کر سکتی۔ ڈیمارش کی حیثیت سیاسی ،سفارتی اور اخلاقی دباؤ کی ہوتی ہے جو پیغام دیتا ہے کہ فلاں عمل بین الاقوامی قوانین، معاہدات، دوطرفہ مفادات کے خلاف سمجھا جا رہا ہے لہٰذا اس کا نوٹس لیا جائے ۔یہ اکثر پہلا غیر رسمی انتباہ ہوتا ہے ۔یہ قانونی ہتھیار نہیں بلکہ ریاستی سنجیدگی اور سفارتی موقف کا اظہار ہے اور بین الاقوامی تعلقات میں اسے نظر انداز کرنا مشکل ہوتا ہے ۔لہٰذا جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ پاکستان کی جانب سے دئیے جانے والے ڈیمارش پر برطانیہ حرکت میں آئے گا تو ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ ڈیمارش پر عملدرآمد پاک برطانیہ تعلقات کے حوالہ سے اہم ہے ۔

پاکستان کی حکومت اور ریاست نے کسی حد تک اس سے صرف نظر برتا اور اپنے طور پر کوشش کیں کہ اس مذموم ایجنڈا پر گامزن عناصر کو اپنی ان غیر قانونی حرکات اور خصوصاً ملکی مفادات کے منافی ہتھکنڈوں سے انہیں باز رکھا جائے لیکن اب ان کی جانب سے پاکستان کی مسلح افواج کے چیف اور ڈیفنس فورسز کو ایک ایسے وقت میں ٹارگٹ کرنے کا سلسلہ شروع ہے جب دنیا بھر کے اہم ممالک اور فارن میڈیا دہشت گردی کے خلاف ان کی کوششوں، کاوشوں اور خطہ میں استحکام کے حوالہ سے ان کے کردار کو سراہتے نظر آ رہے ہیں اور ماہرین کے مطابق دشمن کو تو چیف آف ڈینس فورسز کا بڑھتا کردار ہضم نہیں ہو رہا لیکن دشمن کون سی ایسی کمی چھوڑ رہا ہے جو یہ گروہ پوری کرتے نظر آ رہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں بریڈ فورڈ کے اس مظاہرے اور اس میں چیف آف ڈیفنس فورسز کے خلاف مذموم عزائم کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جا رہا ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈیمارش کے علاوہ حکومت پاکستان سے برطانیہ کو مکتوب بھی بھجوایا ہے جس میں انہیں اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی اپیل بھی کی ہے اور مکتوب میں برطانوی سرزمین پر پاکستانی ریاست اور ریاستی اداروں کے حوالہ سے ہونے والی ناپسندیدہ سرگرمیوں کو بنیاد بناتے ہوئے ان کی توجہ ان پر مبذول کرائی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ پاکستان اس حوالہ سے ان کے مثبت اور نتیجہ خیز کردار کا خواہاں ہے تاکہ ہمارے دوطرفہ تعلقات مزید بہتر اور مضبوط ہوں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں