اپوزیشن کا مزاحمتی بیانیہ اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے

اپوزیشن کا مزاحمتی بیانیہ اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے

اپنے ایجنڈا پر یکسو ہوئے بغیر پی ٹی آئی کا پریشانی اور مشکلات کا دور ختم نہیں ہوگا

(تجزیہ:سلمان غنی)

ایک جانب اپوزیشن حکومت سے مذاکرات کی خواہاں جبکہ دوسری جانب اپوزیشن کی بڑی جماعت پی ٹی آئی حکومت کے خلاف سٹریٹ پاور کو متحرک اور منظم کرنے کے ایجنڈے پر گامزن ہے ۔اس حوالے سے بنیادی مشن و کردار وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کو سونپا گیا ہے اور ان کے دورہ لاہور کو اسی تناظر میں لیا جا رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پنجاب حکومت نے ان کے اس سیاسی دورہ پر ان کے استقبال کی ضرورت محسوس نہیں کی اور ان کی آمد پر کسی بھی ہنگامی اور غیر معمولی صورتحال کے امکانات کے پیش نظر  ضروری حفاظتی اقدامات کر رکھے تھے اور لاہور کی اہم شاہراہوں اور مختلف مقامات پر پولیس بھی تعینات نظر آئی۔ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے اپنے دورہ لاہور کے دوران ن لیگ کی قیادت کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کیا اور خصوصاً پنجاب حکومت کے اپنے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر تنقید بھی کی۔ جبکہ پنجاب حکومت کے ذرائع مصر تھے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا جس مقصد اور مشن کے تحت یہاں آئے ہیں وہ ان کی حکومتی پوزیشن میں نہیں سیاسی ایجنڈا کے تحت ہے ، لہٰذا ان کے استقبال اور استقبالیہ کا کوئی جواز نہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کا یہ دورہ کس حد تک کامیاب رہا اور اس کے اثرات کیا ہوں گے ، پنجاب کی سطح پر اگر پی ٹی آئی کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو پنجاب کی سیاسی قیادت جیلوں میں جانے اور خصوصاً نو مئی کے واقعات کے بعد مقدمات کے سلسلے نے پنجاب کی سطح پر پی ٹی آئی کے کردار کو محدود کر رکھا ہے اور گزشتہ سال 26نومبر کو اسلام آباد کے مارچ کے بعد سے پنجاب میں پی ٹی آئی کوئی قابل ذکر احتجاج نہیں کر سکی اور خصوصاً ان کی تنظیمیں اور اراکین اسمبلی دفاعی محاذ پر بھی دیکھے گئے ۔ ویسے بھی حقائق یہی ہیں کہ پی ٹی آئی کے مسلسل احتجاجی عمل نے ان کی تنظیموں اور ذمہ داران کو تھکا کر رکھ دیا ہے اور وہ سیاسی محاذ پر کوئی بڑا کردار ادا کرتے نظر نہیں آ رہے اور اس کی ایک اور بڑی وجہ پنجاب کے محاذ پر وزیراعلیٰ مریم نواز کی انتظامی گرفت ہے اور انتظامی مشینری صوبہ میں امن و امان کے حوالے سے کسی کمپرومائز کی پوزیشن میں نہیں اور وہ کسی کو بھی ہنگامی اور غیر معمولی صورتحال طاری کرنے کی اجازت نہیں دے رہی ۔

سہیل آفریدی کی لاہور آمد ،وکلا کنونشن میں شرکت ،پنجاب اسمبلی کا دورہ اور لبرٹی چوک میں خطاب کا عمل دراصل اپنی تنظیموں اور اراکین اسمبلی و کارکنوں کو فعال اور متحرک بنانا تھا اور انہیں آنے والے حالات اور کسی منظم احتجاج کے لئے تیار کرنا تھا ۔بلاشبہ ان کی آمد پر عہدیدار اور کارکن کسی حد تک سرگرم نظر آئے لیکن وہ خوف و ہراس کے سایے سے باہر نہ نکل سکے ، اس کی ایک بڑی وجہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی لاہور آمد سے قبل بعض متحرک کارکنوں اور عہدیداروں کے گھروں پر چھاپے تھے ۔سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کے برعکس سہیل آفریدی نے یہ دورہ سیاسی رہنما کے طور پر کیا اور جہاں جہاں وہ جا سکتے تھے وہاں کے اسیران کے گھروں میں جا کر ان کے اہل خانہ سے یکجہتی کا اظہار کیا ،مطلب یہ کہ وہ اپنے احتجاجی بیانیہ اور سیاسی حکمت عملی کے حوالے سے یکسو ہیں اور سیاسی محاذ کو گرم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ سٹریٹ پاور کو متحرک بنانے کے اس مشن کے تحت وہ لاہور آئے ہیں کیا وہ کراچی ا ور کوئٹہ بھی جائیں گے اور یہ کہ کسی صوبہ کے وزیراعلیٰ کو اپنی آئینی ذمہ داریوں کے ساتھ سیاسی محاذ پر سرگرمیوں کی آزادی ہوگی ؟۔

اگر وزیراعلیٰ پختونخوا اپنے اس سیاسی ایجنڈا پر گامزن حکومت کے خلاف مزاحمت کی تیاری کے لئے زور پکڑیں گے تو دوسری جانب اپوزیشن کے مذاکراتی عمل کا کیا بنے گا، لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ اگر اپوزیشن ایک ہی وقت میں اپنے ایجنڈا کے تحت الگ الگ حکمت عملی پر کاربند ہے تو دوسری جانب حکومت بھی مذاکرات کے ساتھ امن و امان کی بنا پر اپنی انتظامی طاقت بروئے کار لائے گی جس سے سیاسی محاذ پر تناؤ اور ٹکراؤ کی صورتحال کا سدباب نہیں ہوگا بلکہ حالات گھمبیر ہوں گے اور مذاکرات کا عمل اول تو شروع نہیں ہو پائے گا اور اگر شروع بھی ہو گیا تو چل نہیں پائے گا، لہٰذا پی ٹی آئی کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ اگر مذاکرات کے آپشن کو بروئے کار لانا ہے تو پھر مزاحمتی بیانیہ اور ایجنڈا کا کوئی جواز نہیں ہوگا ،لہٰذا جب تک پی ٹی آئی اپنے ایجنڈا پر یکسو نہیں ہوگی اس کی کوئی حکمت عملی بھی کامیاب نہیں ہو پائے گی اور اس کا پریشانی اور مشکلات کا دور ختم نہیں ہوگا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں