ملکی مخدوشات اور فیض کی قندیل فکر!
ستم کی داستاں ، کشتہ دلوں کا ماجرا کہئے جو زیرلب نہ کہتے تھے ، وہ سب برملا کہئے فیض کی فکر کا محور انسان اور انسانیت ، اس کی آزادی اور بہبود، اس کی ترقی او رمعراج ہے نظم ’’فلسطینی بچے کیلئے لوری‘‘ میں وہ کہتے ہیں کہ ’’مت رو بچے، تو اگر روئے گا، تو یہ سب اور بھی تجھ کو رلائیں گے
فیض احمدفیض ، کئی سال قبل نومبر کے دوسرے عشرے کے آخری دن جہان فانی سے رخصت ہوگئے مگر اپنے شعری افکار کا مینار نور چھوڑ گئے جو نوح انسانیت کی راہوں کی تاریکیوں کو روشن کرتا رہے گا۔ بڑے شاعر کا کمال یہ ہوتا ہے کہ اس کی شاعری میں ابدیت ہوتی ہے۔ یعنی ہمیشہ قائم رہنے کی صلاحیت۔ اسی لئے وہ زمانے میں گردشوں اور وقت کی طویل گزر ان کے باوجود زندہ رہتے ہیں۔ لہٰذا ان کا شعری و فکری سرمایہ ہر دور کے انسانوں کی رہنمائی یا دست گیری کرہتا ہے۔ فیض کو بھی یہ کمال حاصل ہے:
کرے نہ جگ میں الائو تو شعر کس مصرف
کرے نہ شہر میں جل تھل تو چشم نم کیا
فیض کا شعر جگہ میں الائو بھی کرتارہے گا اور اس کی چشم نم سے شہر میں جل تھل بھی ہوتی رہے گی کہ یہی اس کی شاعری کا خاصہ ہے اور اس کا یہ خاصہ ان کے انقلاب آفرین ترقی پسندانہ افکار کی وجہ سے ہے۔ ترقی پسندانہ فکر نہ کسی زمانے میں محصور کی ترقی و ارتفاع سے ہم کنار کرنے کی ہمہ وقت آرزو ، جستجو اور عمل کا نام ہے تا کہ زندگی کے شجر پر قدروں کی نئی کونپلیں اور فکر ونظر کے نئے نئے پتے اس کی نمو اور اس کے حسن و جمال کا باعث بنیں اور فیض کی انقلابی ترقی پسندانہ فکر کا نصب لعین بھی یہ ہے:
مے خانہ سلامت ہے ، تو ہم سرخی مے سے
تزئین در و بام حرم کرتے رہیں گے
فیض کی فکر کا محور انسان اور انسانیت ہے۔ اس کی آزادی اور بہبود ہے اس کی ترقی او رمعراج ہے۔ جبر، استحصال اور استبداد اور وہ تمام منفی قوتیں جو اس کی بہبود اوراتفاع میں سد راہ ، فیض ان کے خلاف ہیں۔جہاں کہیں بھی انسانیت پر ظلم و ستم اور تشدد او راستبداد ہوا، احتجاج رد عمل کیا جواس کی فطرت کا تقاضا ہے ، اسی لئے وہ ایک عام شاعر کی طرح صرف زبان کی سطح پر اس کے خلاف محض لب نہیں کھولتا یا صرف مزاحمتی شاعری نہیں کرتا بلکہ داعی انقلاب کی طرح، اس کے خلاف برملا بولنے اور برسر پیکار ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ یہاں تک کہ دارورسن کی آزماش میں تسلیم جاں کا پیغام بھی دیتا ہے۔
ستم کی داستاں ، کشتہ دلوں کا ماجرا کہئے
جو زیرلب نہ کہتے تھے ، وہ سب برملا کہئے
مصر ہے محتساب ، راز شہیدان وفا کہئے
لگی ہے حرف نا گفتہ پر، اب تعزیر بسم اللہ
کہ مقتل چلو بے زحمت تفصیر بسم اللہ
ہوئی پھر امتحان عشق کی تدبیر بسم اللہ
اب سوال یہ ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جن کو فیض سر مقتل چلنے اور امتحان عشق میں سرخرو ہونے کیلئے تلقین کر رہے ہیں۔ ظاہرہے مظلوم و مقہور لوگ، ظلم و ستم کے شکار عوام اور استبداد کی چکی میں پسے جانے والے انسان۔ اسی بنا پرفیض نے فلسطینی عوام پر مغربی استبداد کے خلاف نعرئہ حق بلند کیا تھا اور کہا تھا:
جس زمین پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم
لہللہاتا ہے وہاں ارض فلسطین کا علم
تیرے اعداء نے کیا ایک فلسطین برباد
میرے زخموں نے کئے کتنے فلسطین آباد
اسی طرح وہ نظم ’’فلسطینی بچے کیلئے لوری‘‘ میں اس بچے کو جس کے امی ، ابا ، باجی ، بھائی شہید ہوگئے ہیں۔ دلاسا دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’مت رو بچے، تو اگر روئے گا، تو یہ سب اور بھی تجھ کو رلائیں گے۔ آج کل یہ فلسطینی جن ظالموں کا ظلم سہہ رہے ہیں اور ہر آن تہہ تیغ ہو رہے ہیں، وہ ظالم اسرائیلی ہیں جو امریکی قوت کے بل پر فلسطینی عوام کو ان کی ارض وطن سے بے دخل کر کے انہیں نابود کرنے کے جنوں میں مبتلا ہیں۔ فیض کے نغے ان مجبور و مقہور لوگوں کو دلاسا بھی دے رہے ہیں اور ان میں عزم و ہمت کے جذبے بھی بھرتے رہے ہیں۔ اس لئے کہ وہ طبعًا ایسا کرنے اور ارض وطن سے یہ کہنے پر مجبور ہیں۔
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیئے اے ارض وطن
جو ترے عارض بے رنگ کو گلنار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہوا
کتنے آنسو ترے صحرائوں کو گلزار کریں
پھر یہی ظلم و عدو ان اور جورو استبدادافغانستان میں ہوا۔ سینکڑوں کی تعداد میں بچوں ،جوانوں ، عورتوں اورمردوں کا قتل ہوا۔ گھر برباد ہوئے۔ کھیتیاں اجڑ گئیں۔ عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوئے اور یہ سب اس سپر پاور کے حکم اور اس کے ذاتی عمل سے ہوا جو اپنے آپ کو دنیا کی تہذیب یافتہ قوم سمجھے جانے پر مصر ہیں۔ یہ سب اسی عمل کا شاخسانہ ہے یا اس کا رد عمل ہے۔ فیاض کی لیلائے وطن بھی خودکش حملوں کی زد میں ہے۔ وطن افغانیوں کا تھا۔ ان افغانیوں کا جنہیں تعلیم کے وسائل میسر نہیں تھے جنہیں جدید زندگی کی آسائشیں حاصل نہیں تھیں۔ جنہیں سانس کا رشتہ قائم رکھنے کیلئے سخت محنت و کاوش سے گرزتا پڑتا رہا مگر سپر پاور انہیں اپنے روشن مستقبل کیلئے خطرہ سمجھتی رہی ہے اور اسی لئے دہشت گردی کے نام پر ان کی مزاحمتی قوتوں کو کچلنے کے حوالے سے انسانیت عامہ کو خاک و خون میں تڑپاتی رہی ہے۔ اس صورت حال پر فیض کا رد عمل کیا ہوتا ، کیا وہ استبداد کی حمایت کرتے؟ کیا وہ خاک و خون میں پڑتنے والوں کو ظلم روا رکھنے پر زور دیتے؟ فیض جسا حساس اور درد مند شاعر اور دانش ور ایسے کس طرح کرتا۔ آئیے ہم اس کی شاعری میں اس کا جواب ڈھونٹتے ہیں۔ ان کی شاعری کہتی ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف احتجاج کرتے اور صرف یہ نہ کہتے کہ ’’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘‘ بلکہ دنیا بھر میں یہ نعرہ حق بلند کرتے:
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
پیمان جنوں ہاتھ کو شرمائے گا کب تک
دل والو، گریباں کا پتا کیوں نہیں دیتے
’’دہشت گردوں‘‘ کی موجودہ جنگ نے ہمیں مخمصے Dilemma میں پھنسا دیا ہے۔ ہمارے اہل دانش اور اہل فکر کا ایک طبقہ کہتا ہے کہ یہ ہماری جنگ تھی اور سپر پاور اپنے لئے نہیں ہمارے لئے ہمارے ساتھ لڑتی رہی ہے۔ دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ اس میں ہماری جنگ کہاں سے آگئی؟ یہ تو مغربی قوتوں کی نو آبادیاتی جنگ ہے اور وہ ماضی کی طرح ہماری قوت ، ہماری طاقت او رہمارے جوش عمل کے ذریعے اپنی فتح کا سامان اور مستقبل کے مفادات کا تحفظ کررہی ہے اور ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی ہی ایک اسلامی دفاعی قوت کے خلاف اپنے ہی ملک کی دفاعی طاقت کو استعمال کر کے اپنے آپ کو کمزور کرتے رہے ہیں۔ یوں فکری طورپر ہم تقسیم ہو کر مار کھاتے رہے ہیں۔ آئیے فیض سے پوچھیں کہ وہ اس مخمصے کے ضمن میں کیا فرماتے ہیں۔
وہ بتوں نے ڈلے ہیں وسوے کہ دلوں سے خوف خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیال روزجزاگیا
جو نفس تھا یہ عہد وفا کیا ، تو وہ آبروے وفا گئی
سر عام جب ہوئے مدعی ، تو ثواب صدق و صفا گیا
فیض احمد فیض ادبی اور فکری سطح پر ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔ اس تحریک پر مارکسی نظریات اور اشتراکی و سیاسی تصورات کا غلبہ رہا۔ فیاض احمد فیض بھی اس تحریک کے اس مکتب فکر میں شامل رہے جو نظریاتی اور سیاسی تھا لیکن بایں ہمہ وہ بقول ن م راشد کسی نظرے کا شاعر نہیں، احساسات کا شاعر ہے (دیپاچہ نقش فریادی)
مارک سی نظریات کی طرف رجحان کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے وقت کے نظام سرمایہ داری Captialism پر کاری ضرب لگائی تھی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں نفع کی بنیاد پر سرمایہ ہوتی ہے۔ اس لئے اس سسٹم میں سرمایہ دار کو بغیر ذاتی محنت کے پھیلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے۔ اور اس کے سرمایہ کی بڑھتی ہوئی کلیدی کردار ادا کرنے والے محنت کو مزدوری بھی اس طرح ملتی ہے جس طرح کہ خیرات دی جاتی ہے جبکہ اشتراکی نظام میں نفع یا آمدنی کی بنیاد محنت۔ اس لئے محنت کش کو اس کی محنت کا صلہ ملتا ہے تب اشتراکی نظام Down-trodden لوگوں کو اٹھا کر چلنے میں مدد دی۔ فیض احمد فیض نے اسی لئے ان قدروں کو اپنی شاعری میں پیش کیا جو ستم رسیدہ لوگوں کو سنبھالا دیتی تھی۔
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراوں پر غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کر ابلتی ہے پوچھ
اپنے دل پہ مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
لیکن اب وہ تناظر باقی نہیں رہا۔ اب اس Captialism کا شکار افغان قوم کے محنت کش مسلمان ہیں۔ فیض کو بھی ہم اسی ایک مناظر میں نہیں دیکھ سکتے بلکہ اس سے پہلے گزر گئے تھے۔ ان کی معروف نظم ’’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔یہ سارے راز کھوتی ہے۔ یہ نظم روز نبرگ کی بے مثال قربانی سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے۔ یہاں وہ مرتے دم تک انسانیت کے مستقبل کیلئے کہتے رہے۔