رشید احمد صدیقی صاحبِ طرز انشاء پرداز

اُنہوں نے اُردو طنزو مزاح کو علمی وقار اور تہذیبی رچائو سے نکھارا ‘تنقید کو شگفتگی اور شادابی سے روشناس کرایا رشید احمد صدیقی نے اس دور میں لکھنا شروع کیا جب انگریز سامراج کا ظلم و ستم اپنے عروج پر تھا اور بہت کم ادیب ایسے تھے جو کھل کر حکومت پر تنقید کرتے تھے
رشیدیات
لیڈرز اور بڑے آدمی رشید احمد صدیقی کے طنز کا خصوصی نشانہ رہے ۔بڑے آدمیوں کی دیکھئے وہ کیسے خبر لیتے ہیں:
’’ وبا یا کسی بڑے آدمی کی آمد ہوتی ہے تو اس کے سائے پہلے نمودار ہوتے ہیں۔ جہاں کہیں بڑے پیمانے پر صفائی ہوتے دیکھتا ہوں تو میرے ذہن میں دو خیال فوراً پیدا ہوتے ہیں یعنی وبا پھیلنے والی ہے یا کوئی بڑا آدمی آنے والا ہے۔ ان دواندیشوں میں سے ایک ضرور صحیح ہوتا ہے۔ میں نے نہیں تو آپ نے یقیناً ایسے آدمی ضرور دیکھے ہوں گے جو وبا بھی ہوتے ہیں اور بڑے بھی‘‘۔اور یہ بھی انہوں نے کسی لیڈر یا بڑے آدمی کے بارے ہی میں لکھا ہے جو کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی سب کچھ خیال کئے جاتے ہیں اور جن کی باتیں کتنی ہی مضحکہ خیز کیوں نہ ہوں بے حد اہم متصور کی جاتی ہیں۔ ’’جس دنیا کو چھوڑ کر میں یہاں آیا ہوں اس میں بہت سے ایسے لوگ اب بھی یقیناً ہوں گے جنہوں نے کبھی کوئی قابل فخر بات نہ کی ہو لیکن ان کی ہر بات اور ذات پر فخر کیا گیا‘‘۔
چغلی کے متعلق لطف ہونا چاہیں تو یہ پڑھئے۔’’چغلی کھانا غذا بھی ہے اور ورزش بھی۔ آج کل حال ایسا ہو رہا ہے غذا ناپائیدار ہے اور ورزش بڑھتی جا رہی ہے۔ اس لئے اسی چیز کی مانگ بڑھ گئی ہے جو غذا اور ورزش دونوںسے نجات دلا سکے۔ چغلی ایسی غذا ہے جس کے بغیر ہماری سوسائٹی کا دستر خوان پھیکا اور ویران رہتا ہے۔ جس طرح کھانے کا راز وٹامن میں ہے، سوسائٹی کی آبرو چغلی سے ہے‘‘۔
رشید احمد صدیقی کے ہاں صبر کا پھل کتنا مفید تھا،جانتے ہیں۔’’ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے لیکن ذیابطیس ہو تو مٹھاس پر بھروسہ نہ کرنا چاہئے۔ یوں بھی صبر کا پھل اتنی دیر میں جا کر پکتا اور میٹھا ہوتا ہے کہ اکثر صبر کرنے والا نہیں بلکہ اس کے ورثاء اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں‘‘۔
رشید احمد صدیقی اردو نثر کا ایک معتبر نام ہے۔ رشید احمد صدیقی عام طور پر طنزو مزاح نگار کی حیثیت سے معروف ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑی متنوع شخصیت کے مالک تھے۔ اردو تنقید اور مرقع نگاری میں بھی ان کو امتیازی حیثیت حاصل ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک ایسے صاحب طرز انشاپرداز تھے جن کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ انہوں نے اردو طنزو مزاح کو علمی وقار اور تہذیبی رچائو سے نکھارا، تنقید کو شگفتگی اور شادابی سے روشناس کرایا۔ مرقعوں کے ذریعے متعلقہ شخصیات کو مجسم کرتے ہوئے اعلیٰ انسانی اقدر کو سراہا اور ان کو عام کرنے اور مقبول بنانے میں حصہ ادا کیا۔ اردو ادب کی اعلیٰ اقدار سے آگہی، الفاظ کی مزاج شناسی، معاشرتی صالح اقدار سے ذہنی جذباتی وابستگی نے ان کے اسلوب کو طرفگی اور طرح داری دی۔ نیز علی گڑھ کی علمی، ادبی تعلیمی اور تہذیبی روایات سے ان کی بے پناہ وابستگی بھی کسی عشق سے کم نہ تھی۔
رشید احمد صدیقی25دسمبر 1894ء کو قصبہ بیریا ضلع بلیا میں پیدا ہوئے جہاں ان کا ننھیال تھا۔ رشید احمد صدیقی ابتداء ہی سے والدین کے چہیتے رہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ وہ بچپن میں بہت زیادہ بیمار رہا کرتے تھے۔ رشید احمد صدیقی کی ابتدائی تعلیم پرانے طریقے پر ہوئی۔ ان دنوں دینیات، بغدادی قاعدہ اور عربی و فارسی کی تعلیم عام تھی اور روزگار کے متلاشی اہل علم، بچوں کو ان کے گھروں پر تعلیم دیتے تھے۔ رشید احمد صدیقی نے بھی ایسے ہی ایک اہل علم مولوی قدرت اللہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔دینی تعلیم تو گھر پر ہو جاتی تھی لیکن اردو اور حساب کیلئے بچوں کو قصبہ کے پرائمری سکول میں داخل کیا جاتا تھا۔ رشید احمد صدیقی نے یہاں اپنے استادوں سے اردو سیکھی ۔
رشید احمد صدیقی کے طنزو مزاح کے دو مجموعے ہیں ’’مضامین رشید‘‘ اور ’’ خنداں‘‘۔ ویسے ان کے مضامین کے دیگر مجموعوں میں بھی طنزو مزاح کی جھلکیاں ملتی ہیں اور بے شمار طنز یہ و مزاحیہ مضامین مختلف رسائل اور اخبارات میں منتشر ہیں۔ ’’مضامین رشید‘‘ کی اشاعت پہلے عمل میں آئی اور ’’ خنداں‘‘ کی بعد میں، لیکن نقشِ ثانی، نقش اوّل سے قدرے مختلف تھا۔ طنزو مزاح کی شگفتگی اور اسلوب کی دل نشینی’’مضامین رشید‘‘ میں زیادہ ہے اور آج بھی ’’مضامین رشید‘‘ نہ صرف یہ کہ رشید احمد صدیقی کا ایک اہم کارنامہ ہے بلکہ آج کے طنزو مزاح کے ادب میں بھی اس کی حیثیت مسلم ہے ۔’’خنداں‘‘ رشید احمد صدیقی کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو ریڈیو سے بھی نشر ہوئے۔ ’’خنداں‘‘ کا نمایاں وصف اس کے مضامین کا تنوع ہے۔ ان مضامین سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رشید احمد صدیقی کا ذہن کتنا وسیع، نظر کتنی گہری اور زبان و بیان پر ان کو کس حد تک قابو حاصل تھا۔انہوں نے زندگی کے ہر پہلو کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا لیکن ہر جگہ ان کا انداز عالمانہ اور مہذب ہے۔ شعر و ادب کی دنیا تو ان کی اپنی دنیا ہے ،سیاست، تاریخ اور دیگر علوم و فنون پر بھی ان کی نظر ہے۔ ان سب کی یکجائی کے باعث ان کے طنزو مزاح سے لطف اندوز ہونا آسان نہیں۔ پڑھنے والوں کو ایک مخصوص پس منظر سے واقف ہونے کے علاوہ بے حد شائستہ مذاق کا حامل اور اردو ادب کے کلاسیکل سرمائے سے آگاہ ہونا اور خاصا باشعور ہونا ضروری ہے۔ اسی وقت رشید احمد صدیقی کے طنزو مزاح اور ان کے فن کی بارکیوں سے لطف اٹھایا جا سکتا ہے جیسا کہ مولانا عبدالماجد دریا یادی نے لکھا ہے: ’’رشیدیات سے لطف اٹھانے کیلئے خود بھی اچھا خاصا پڑھا لکھا ہونا چاہئے، ادبی اور شخصی تلمیحات بکثرت ہوتی ہیں‘‘۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ علی گڑھ کی وجہ سے رشید احمد صدیقی کے فن نے جلا پائی اور اردو ادب میں روشنی کا ایک نیا مینار وجود میں آیا۔ رشید احمد صدیقی، اردو کے نامور طنزو مزاح نگار اکبر الہ آبادی سے متاثر تھے۔ اکبر الہ آبادی کی طرح رشید احمد صدیقی بھی اونچے عہدے پر فائز رہے اور اس وقت جب کہ تحریر و تقریر پر بہت زیادہ پابندیاں تھیں۔ رشید احمد صدیقی نے سامراج ، پارلیمان اور آئی سی ایس عہدیداروں پر کاری چوٹیں کیں۔
طنزو مزاح کیلئے تیز سیاسی شعور اور بصیرت درکار ہے۔ رشید احمد صدیقی کے ہاں تیز سیاسی شعور بھی تھا اور بصیرت بھی لیکن ان کا سیاسی سے زیادہ سماجی شعور تیز اور شدید تھا۔ انہوں نے ملک کی سیاست سے زیادہ معاشرت کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور انہوں نے برطانوی پارلیمان وغیرہ پر جو طنز کئے ہیں وہ بھی دراصل ان کے معاشرتی پس منظر کی روشنی میں ہیں۔ متعلقہ افراد کے طور طریقوں اور اخلاق و عادات پر۔
رشید احمد صدیقی نے اس دور میں لکھنا شروع کیا جب کہ انگریز سامراج کا ظلم و ستم اپنے عروج پر تھا اور بہت کم ادیب ایسے تھے جو کھل کر حکومت پر تنقید کرتے تھے۔ جس طرح کسی طنز نگار پر لازم ہے کہ وہ اپنی خامیوں پر نظر رکھے اسی طرح کوئی طنز نگار جب تک کہ حکومت اور قوم کے اقوال و اعمال کا جائزہ نہ لے حقیقی معنوں میں فنکار نہیں کہا جا سکتا۔ رشید احمد صدیقی اس زاویے سے ایک سچے فنکار ہیں کہ انہوں نے حکومت پر براہ راست تنقید نہ کی ہو،کڑی تنقید ضرور کی۔
رشید احمد صدیقی نے شاعروں کو بھی اپنے طنزو مزاح کا نشانہ بنایا ۔ کہا جاتا ہے کہ کبھی یونان میں نجومیوں کی اس قدر کثرت تھی کہ ہر دو افراد میں ایک ماہر نجوم تھا۔ شاعروں کے بارے میں یہی بات آج ہمارے ملک کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ شاعری وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے اور شاعروں کی یہ کثرت نہ تو ادب کیلئے خوشگوار علامت ہے اور نہ معاشرے کیلئے۔ سب سے پہلے آج کے شاعروں اور خاص طور پر خوش آواز شاعروں پر ایک بھرپور طنز: ’’شیخ صاحب شاعر کے علاوہ گویے بھی ہیں۔ شاعر کا گویا اور گویے کا شاعر ہونا کوئی اچنبھے کی بات ہے نہ بری بات۔ بڑے ہو کر سوچو گے تو معلوم ہوگا کہ صرف بات کا پھیر ہے ورنہ اصل میں دونوں قریب قریب ایک ہیں‘‘۔
جدید شاعری کے بارے میں رشید احمد صدیقی کے نقطہ نظر سے سب واقف ہیں۔ تنقیدی مضامین میں تو انہوں نے جہاں تہاں جدید شاعری پر اظہار خیال کیا ہی ہے لیکن ان کے طنز سے بھی جدید شاعری اور شاعر اپنا دامن نہیں بچا سکے ہیں کچھ انہی کے بارے میں طنز ہے اور کیسا لطیف:
’’ جدید انداز کی شاعری جو ہر روز نئی اور جدید سے جدید تر ہوتی رہتی ہے اب تک اوّل درجے کا کوئی شاعر نہیں پیدا کر سکی ہے۔ کبھی کبھی تو یہاں تک گمان ہونے لگتا ہے کہ اس کا مقصد اتنا اوّل درجے کا شاعر پیدا کرنا نہ ہو جتنا تیسرے درجے کے سامعین‘‘۔
باکمال مزاح نگار، مضمون نویس اور نقّاد کی حیثیت سے رشید احمد صدیقی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ48سال قبل 15 جنوری 1977 کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ طنز و مزاح پر مبنی مضامین کے علاوہ رشید احمد صدیقی نے نقد و نظر کے حوالے سے بھی یادگار کتب چھوڑیں۔ انھوں نے طنز و مزاح، خاکے، علمی و ادبی موضوعات پر مضامین کے علاوہ تنقید نگاری بھی کی، ان کی چند کتابوں کے نام یہ ہیں۔’’گنج ہائے گراں مایہ‘‘،’’ اردو طنز و مزاح کی تنقیدی تاریخ‘‘،’’ ہم نفسانِ رفتہ علی گڑھ‘‘۔ ماضی و حال اور ان کے خطوط بھی کتابی شکل میں شائع ہوئے جو ادبی دستاویز اور مستند حوالہ ہیں۔