صدقہ: اللہ کی رضا، رحمت اور مغفرت کا ذریعہ
’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘(سورۃ البقرہ)
اللہ کی راہ میں اللہ کی رضا جوئی کیلئے خرچ کرنے سے اللہ کریم گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ ہر صدقہ کچھ نہ کچھ گناہ معاف کرا دیتا ہے۔ جب کو ئی انسان اللہ کی راہ میں خرچ کرتاہے، کسی ضرورت مند کی مدد کرتا ہے تو اس کے دل سے جو دُعا نکلتی ہے تو اللہ کریم اس کے عوض اپنی شان کے مطابق صدقے کا بدلہ تو دیں گے ہی لیکن اس کے ساتھ مزید یہ ہے کہ انسان کی کوتاہیاں، غفلتیں اور لغزشیں بھی معاف فرما دیتے ہیں۔
اللہ کریم ہمارے ہر عمل سے واقف ہے۔ بات وہی ہے کہ ہمارا دل مان جائے، ہمیں یقین حاصل ہو جائے تو ازخود آدمی کی اصلاح ہوتی چلی جاتی ہے۔ اب زندگی کے کتنے امور جو ہم لوگوں سے چھپ کر کرتے ہیں، کتنی باتیں جو لوگوں سے الگ سرگوشیوں میں کرتے ہیں۔ اگر ہمیں یہ یقین ہو کہ ہم کسی بھی لمحے اللہ سے الگ نہیں ہیں تم جہاں جس حال میں ہو، تمہارا اللہ تمہارے ساتھ ہے، تو پھر اللہ کے روبرو اللہ کی نافرمانی کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور یہ سعادت نصیب ہو جاتی ہے کہ بندہ اللہ کی اطاعت کرنے لگ جاتا ہے۔ بتقاضائے بشریت کبھی ایسی غفلت ہو گئی کہ اللہ کی حضوری قائم نہ رہی اور کوئی غلط کام کر گزرا تو اگر کسی لمحے بھول گیا تو جیسے ہی یاد آیا پھر اللہ کو حاضر سمجھ، پھر اللہ کے روبرو ہو جا، اللہ کی یاد کو دل میں سجا لے۔ اس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ بندہ فوراً توبہ کرتا ہے اور آئندہ اس طرف نہیں جاتا، غلطی نہیں دہراتا لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ اسے یہ یقین ہو جائے کہ اللہ ہمارے ہر کام سے باخبر ہے۔ کراماً کاتبین کی گواہی تو اپنی جگہ لیکن ہاتھ پاؤں الگ گواہی دیں گے۔
اللہ کے رسول ﷺ نے قسم اٹھا کر جو باتیں ارشاد فرمائی ہیں ان میں پہلی بات یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں لوگوں کی دینی و دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے سے یعنی صدقہ کرنے سے انسان کے مال میں ہرگز کوئی کمی واقع نہیں ہوتی ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر فقراء کو دے دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اور تمہارے کاموں کی اللہ کو خوب خبر ہے۔ (سورۃ البقرہ: 271)، صدقہ دونوں طرح سے کرنا درست ہے ظاہر کر کے بھی کیا جائے تو اس میں حرج نہیں اور چھپا کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ بعض مواقع ایسے ہوتے ہیں جہاں ظاہر کر کے دینا زیادہ بہتر ہوتا ہے تاکہ باقی لوگوں میں بھی اس کی ترغیب اور شوق پیدا ہو اور وہ بھی نیکی کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
نبی کریمﷺ کا مزاج عالی یہ ہے کہ لوگوں کو کفر میں، اللہ کی نافرمانی میں دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ کوئی غلطی کرے تو ہمیں غصہ آتا ہے ، لیکن حضورﷺ کو دکھ ہوتا تھا کہ یہ اللہ کی مخلوق ہے، اللہ کا بندہ ہے، میں اللہ کی طرف سے سارے جہانوں کیلئے اللہ کی رحمت مبعوث ہوا ہوں، اللہ کی بخشش لٹائی جا رہی ہے اور یہ کیسا بدنصیب ہے کہ پھر جہنم کی طرف جا رہا ہے جبکہ جنت اسے پکار رہی ہے۔ حضورﷺ کو دکھ ہوتا تھا اور حضورﷺ کی تمنا ہوتی تھی کہ اللہ کی ساری مخلوق اللہ کی اطاعت پہ لگ جائے۔ فرمایا: میرے حبیبﷺ! آپﷺ کے ذمے ان سب کو ہدایت پر لانا نہیں ہے۔ مجھے ہر بندے کی خبر ہے کہ اندر سے اس کا معاملہ میرے ساتھ کیسا ہے۔ جس کا معاملہ میرے ساتھ سدھر جاتا ہے، اس کو تیرے در پہ لے آتا ہوں۔ جس کی بات میرے ساتھ ہی نہیں بنتی اس کی آپﷺ کے ساتھ کیسے بن سکے گی! آپﷺ ان کا دکھ کیوں کرتے ہیں۔ لیکن اللہ جسے چاہتا ہے، ہدایت دے دیتا ہے۔ وہ ہدایت اسے دیتا ہے جو اس سے ہدایت طلب کرتا ہے ۔ جو اللہ سے بھاگتا ہے، اللہ کو اس کی ضرورت نہیں کہ پیچھے سے اس کا دامن پکڑ لے۔ محتاج بندہ ہے، اللہ محتاج نہیں ہے۔
تم جو اللہ کی راہ میں بھلائی کرتے ہو، نہ یہ اللہ کریم پہ احسان ہے نہ دین پر، نہ اللہ کے بندوں پر، اس لئے کہ یہ خرچ تم اپنی بھلائی کیلئے کر رہے ہو۔ جو بھی بھلائی کی راہ میں خرچ کرتے ہو، اپنے لئے کرتے ہو۔ یہ بہت ہی اعلیٰ مقام ہے کہ بندہ اللہ کی رضا کیلئے خرچ کرتا ہے۔ جمال الٰہی کو پانے کیلئے، وصال الٰہی کو پانے کیلئے ، اللہ کی خوشنودی کو حاصل کرنے کیلئے خرچ کرتا ہے تو پھر کسی پر احسان نہ ہوا۔ یہ تو ہم اپنی ذات کیلئے کر رہے ہیں، اپنی عاقبت کیلئے، اپنی دنیا کیلئے، اپنی ضرورتوں کیلئے کر رہے ہیں اور اللہ کی رضا کیلئے کر رہے ہیں۔ جو رائی برابر بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اس کا بدلہ دیا جائے گا۔ تم سے زیادتی نہیں ہو گی کہ تم نے جو خرچ کیا وہ ضائع ہو گیا۔ ضائع کرو گے تو خود کرو گے، اللہ کریم ضائع نہیں فرمائیں گے۔