گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

دنیا فورم

تحریر : میزبان : مصطفی حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن۔ عکاسی :سید عمران علی لے آئوٹ:توقیر عباس


شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

کمزور کو دبانا نفسیاتی مسئلہ ہے،قوم غلام بن چکی ہے،عمران یوسف،کچھ لوگ دینی لبادہ اوڑھ کر دین کا مذاق اڑاتے ہیں:  مولانا محمود شاہ

تعلیمی ادارے بچوں کی معاشرتی واخلاقی تربیت نہیں کررہے،اشتیاق کولاچی،کمسن ملازمین پر تشدد کے ذمہ دار والدین اورمالک دونوں ہیں:  عالیہ صارم برنی

 گھروں میں کام کرنے والوں کو عموماً حقوق نہیں دیئے جاتے،ایڈووکیٹ طلعت یاسمین :   ویمن پولیس اسٹیشن میں خواتین ہی پر مشتمل پورا عملہ ہوتا ہے:  انسپکٹر حناطارق 

 

 موضوع: ’’گھریلو ملازمین معاشرتی مظالم کا شکار کیوں؟‘‘

  کیا ہمارا معاشرہ واقعی نفسیاتی بیمارہوچکا ہے؟کیا ہمارے اندر سے اخلاقیات ،انسانیت اور اقدار بالکل ہی ختم ہوچکی ہیں؟ہمیں دینی اور سماجی دونوں ہی طرح کی تربیت کی ضرورت ہے؟یہ وہ سوالات تھے جن کے ساتھ ہم نے دنیا فورم کا فیصلہ کیا ۔رانی پور میں فاطمہ پر ایک جعلی پیر کے تشدد اور اس کی موت جبکہ اسلام آباد میں جج کے گھر ملازمہ رضوانہ پر تشدد جیسے واقعات نے اس موضوع پر دنیا فورم کرنے کا خیال پیدا کیا۔ محمد علی جناح یونیورسٹی کے شعبہ سوشل سائنس کے تعاون سے ماجو کے آڈیٹوریم میں دنیا فورم کا انعقاد کیاگیا۔جس میں عالم دین ،ماہر نفسیات ،سماجیات اور قانون سے گفتگو کی گئی جبکہ ماجو کے طلبہ وطالبات نے ایک خاکے کے ذریعے بھی اس معاشرتی المیے کو اجاگر کیا۔اگر میں اس پروگرام کا حاصل کہوں تو شاید یہ ہو کہ اتفاق کیاگیا کہ ہم سب معاشرتی نفسیاتی پن کا شکار ہوچکے ہیں۔ہمارے انصاف او ر تحفظ کے ادار وں پر سے بھی عوام کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے بلکہ شاید اٹھ ہی چکا ہے۔ظلم کرنے کیلئے اب عورت مرد کی تفریق نہیں رہی بلکہ طاقت کا ہونا ہی کافی ہے۔ہمارے سماجی رویے مسلسل تنزلی کا شکار ہیں۔

میرا خیال ہے کہ ملکی سیاسی ومعاشی حالات بھی اس طرح کے مظالم کے ذمہ دار ہیں۔عوام کی اکثر یت اپنے مستقبل سے مایوس ہوچکی ہے اور کسی بھی کمزور پر ظلم کرکے اپنی ذہنی تسکین چاہتی ہے۔تعلیمی ادارے اور میڈیا بھی ذمہ دار ہیں جو اپنا وہ کردار ادانہیں کررہے جو ان کا فرض ہے۔دنیا فورم میں ہمیشہ یہی کوشش کی گئی ہے کہ معاشرتی المیوں کی نشاندہی کے ساتھ ان کے حل بھی پیش کرسکوں ۔فورم میں محمد علی جناح یونیورسٹی کے شعبہ سوشل سائنس کے سربراہ اشتیاق کولاچی نے تجویز دی کہ سوشل سائنٹسٹ بڑھائیں جائیں اور سماجی تربیت کیلئے ہر تعلیمی ادارے میں سوشل سائنس کے مضامین لازمین قرار دیئے جائیں۔اس طرح ماہر نفسیات عمران یوسف نے تجویز دی کہ اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے۔بہرحال دنیا فورم کی رپورٹ قارئین کے پیش خدمت ہے امید ہے ہمیشہ کی طرح پسند آئے گی۔شکریہ

مصطفیٰ حبیب صدیقی،ایڈیٹر فورم روزنامہ دنیا کراچی

برائے رابطہ:0092-3444473215،0092-3212699629ای میل:mustafa.habib@dunya.com.pk

انبیاء ؑنے بھی ملازمین رکھے اور حسن سلوک کیا۔اللہ  نے لوگوں میں ذمہ داریوں کے اعتبا ر سے تقسیم رکھی ہے ۔ علم اورحقوق کے متعلق آگہی نہ ہونے سے ظلم بڑھتا ہے،نائب صدر جمعیت اتحادالعلماء سندھ

 ہمار ا غصہ چالاک ہے ،صرف کمزور پر آتاہے گھروں میں ملازمین سے مردوں کی نسبت خواتین زیادہ سختیاں کرتی ہیں۔معاشرے کو سماجی اور اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے،سربراہ شعبہ سوشل سا ئنس محمد علی جناح یونیورسٹی

بڑی طاقتیں قرضہ ہماری گردنوں کوغلامی میں جکڑنے کیلئے دیتی ہیں ، یہ ترقیاتی کامو ں کیلئے نہیں دیاجاتا بلکہ ہمیں ذہنی اور معاشرتی غلام بناکر رکھنے کیلئے دیاجاتا ہے ماہر نفسیات ،بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی

عورت معاشرے میں پاک صاف،مظلوم اور بے بس تصور ہوتی ہے جس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ ظلم مرد یا عورت کوئی بھی کرسکتاہے۔ظالم وہ ہوتاہے جو طاقت رکھتاہے،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ

 شوہروں کا قتل کرنے والی خواتین نے بتایاکہ ہم نے قتل سے پہلے باقاعدہ موویز دیکھیں بڑے بڑے واقعات کے پیچھے ایک خاص ذہنیت ہوتی ہے ،عوام کا اداروں پر اعتماد ختم ہوگیا،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم

رانی پور کے واقعہ میں پیر کے گھر ملازمائیں فی بچہ پیدا کرنے پر 2ہزار کا انعام پاتی تھیں ۔پیسے کی لالچ بھی اس جانب دھکیلتی ہے اور وہ شکایت کرنے کے بجائے ظلم سہتی رہتی ہیں،انچارج چائلڈ اینڈ پروٹیکشن سیل کا الزام 

 دنیا: کمزور طبقے پر ظلم زیادہ ہورہاہے کیا وجوہات ہیں؟

مولانا محمود شاہ :جس طرح انسانی تاریخ پرانی ہے اسی طرح ملازم اور آقا کی تاریخ بھی پرانی ہے۔قرآن و سنت سے حوالے ملتے ہیں کہ انبیاء علیہ السلام نے بھی ملازمین رکھے اور حسن سلوک کیاکرتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے لوگوں میں ذمہ داریوں کے اعتبا ر سے تقسیم رکھی ہے ۔ علم اورحقوق کے متعلق آگہی نہ ہونے سے ظلم بڑھتا ہے۔ جدید دنیا میں بھی نظا م چلانے کیلئے قوائدو ضوابط ہوتے ہیں۔اداروں میں قوانین بنائے جاتے ہیں تاکہ نظا م بہتر انداز میں چلتارہے۔ملکی قوانین کے مطابق 16 سال سے کم عمر بچوں کو ملازم نہیں رکھ سکتے لیکن رکھے جارہے ہیں ۔ گھریلوملازمین کے حقوق کے قوانین تو ہیں عمل نہیں ہوتا۔

دنیا: گھریلو ملازمین کے ساتھ برتاؤ پر دین اسلام کیاکہتاہے؟

مولانا محمود شاہ : اسلام نے ملازمین اور مالک دونوں کے حقوق بیان کیئے ہیں۔مظالم کی ایک وجہ مالک اور ملازم دونوں کو اپنے حقوق کے متعلق آگہی نہ ہونا بھی ہے ۔کچھ لوگ دینی لبادہ اوڑھ کر گھناؤنے واقعات میں ملوث ہوتے ہیں او ر دین کا مذاق اڑاتے ہیں۔ فاطمہ کاواقعہ ایک پیر کے پاس ہوا ہے۔اسلام میں اس طرح کی پیری مریدی کا کوئی تصور نہیں ۔انگریز نے جاتے ہوئے اس طرح کے پیر چھوڑ دیئے تھے جو اسلام کا نام لے لوگوں کے ایمان سے کھیل رہے ہیں ۔ان جیسے پیروں کو نماز کے فرائض کا بھی علم نہیں ہوتا ہوگا ۔ایسے لوگ جھوٹے اور گمراہ ہوتے ہیں ان کا دین سے تعلق نہیں ۔ہمیں ایسے لوگوں کو مذہب کے ساتھ نہیں جوڑنا چاہیے۔اسلام کو بدنام کرنے کیلئے اس طرح کے واقعات کرائے جاتے ہیں۔ دین اس طرح کے معاملات کی اجازت نہیں دیتا۔

 دنیا: گھریلوملازمین پر تشدد کے واقعا ت میں اضافہ ہورہا ہے ،کیا ہم نفسیاتی مریض ہو تے جارہے ہیں ؟

 ماہر نفسیات عمران یوسف :غلامی کی بدترین مثال یہ دنیا ہے۔ ہماری قوم غلام بنی ہوئی ہے۔ ہم نفسیاتی مریض ہوتے جارہے ہیں۔کمزور کو دبانا نفسیاتی مسئلہ ہے۔ معاشرے کی اصلاح ضروری ہے۔ سب سے بڑا غلام سب سے بڑا عہدیدار ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف قرضہ دیتا ہے تو اس کے بدلے ایئرپورٹ،ریلوے، ہائی ویز اور دیگراداروں کو گروی رکھواتاہے،یہ قرضہ ٹوٹی ہوئی سڑکوں کو بہتر کرنے کیلئے نہیں ہماری گردنوں کوغلامی میں جکڑنے کیلئے دیاجاتا ہے ۔بیرونی طاقتیں ترقیاتی کامو ں کیلئے قرضہ اس لیے دیتی ہیں تاکہ ہمیں ذہنی اور معاشرتی غلام بناکر رکھیں۔ہماری نسلیں یہ قرضہ اتارتی رہیں گی یہ ہے بدترین غلامی ۔دنیا میں قوانین اس لیے بنائے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو سزائیں دیں ۔انسان میں طاقت ہوتی ہے جب ہی تو قانون توڑتا ہے ،ان چیزوں کو روکنے کیلئے قوانین بنائے جاتے ہیں،انسان شیطانی کاموں میں اتنا آگے نکل جاتا ہے کہ جانور سے بھی بدتر ہوجاتاہے،دنیا میں ہرانسان آزاد ہے،وہ ہرقسم کی جدوجہد کرنے میں آزاد ہوتاہے، ہرانسان کو روزانہ 24 گھنٹے برابر ملتے ہیں۔

دنیا:معاشرے کو سدھارنے میں تعلیمی ادارے کردار ادا کررہے ہیں؟

 اشتیاق کولاچی :حقیقت ہے تعلیمی ادارے وہ کردار اد ا نہیں کررہے جس سے بچوں کی معاشرتی اور اخلاقی تربیت ہو۔ معاشرہ جن بنیادوں پر کھڑاہوتاہے ان میں اخلاقیات ،ایمانداری ،انتظامی معاملات،اساتذہ ،طلباء او ر والدین میں رابطے شامل ہیں جو بدقسمتی سے اب نہیں ہیں۔ بچوں کو پہلی جماعت سے ماسٹر تک کی تعلیم میں تربیت نہیں کی جاتی ۔آج بچے اعلیٰ تعلیم صرف ان شعبوں میں حاصل کرتے ہیں جہاں پیسے کمانے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔سوشل سائنسز کی طرف رجحان کم ہے۔ سوشل سائنس میں داخلہ وہ لیتاہے جس کے نمبر سب سے کم ہوں گے، جب تک سوشل سائنٹسٹ نہیں بنیں گے معاشرہ بہتر نہیں ہوگا۔ ہمار ا غصہ بہت چالاک ہے یہ صرف کمزور پر آتاہے، ہمارا حال تو یہ ہے کہ سامنے اگر طاقت ور انسا ن یا بڑے عہدے کا شخص ہو تو غصہ نہیں آتا بلکہ ہم سے بڑا کوئی نرم مزاج ہی نہیں ہوگا اور غریبوں کے ساتھ لڑتے رہتے ہیں۔

دنیا: کلاسوں میں بچوں کی اخلاقی تربیت کرنا اساتذہ کی ذمہ داری نہیں؟

اشتیاق کولاچی : معاشرے کو سماجی اور اخلاقی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔گھریلو تشدد صرف گھروں میں کام کرنے و الے ملازم کے ساتھ ہی نہیں ہوتا۔ بچے گھر میں رویوں کو دیکھتے اور سیکھتے ہیں ،بچوں کے سامنے اچھے رویوں کو اپنا نا ہوگا۔بچے وہی کرتے ہیں جو دیکھتے ہیں۔مشاہدے میں بات آئی ہے کہ گھروں میں کام کرنے والے ملازمین سے مردوں کی نسبت خواتین زیادہ سختیاں کرتی ہیں۔ایک خاتون جو دن بھر محنت کرکے لوگوں کے گھروں کو صاف رکھتی ہے لیکن اس کا خود کا گھر گندا ہوتاہے کیونکہ ا س کے پاس اپنا گھر صاف رکھنے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔ہمیں گھریلو ملازمین کو پیسے دینے کے ساتھ عزت بھی دینی چاہیے۔ہم فخر سے خود کو مذہبی کہتے ہیں ہونا بھی چاہیے لیکن ہمارے رویئے اسلامی تعلیمات کے خلا ف جارہے ہوتے ہیں۔سب سے پہلے ہمیں خود کو سدھارنے کی ضرورت ہے،فرد سے معاشرہ بنتاہے،مسائل حل کرنے کیلئے خود کو بہترکرناہوگا۔اچھے کام معاشرے کو تبدیل کردیتے ہیں۔

دنیا: گھروں میں ملازمین پر تشدد کی کیاوجوہات ہیں؟

 عالیہ صارم برنی:گفتگو اس بات سے شروع کروں گی ’’کہنے لگے ہم کو تباہی کا غم نہیں ،میں نے کہا تباہی یہی ہے ‘‘ہم لوگ ہیں عذاب الٰہی سے بے خبر،اے بے خبر عذا ب الٰہی یہی ہے ‘‘۔ہم مرد او رخواتین نہیں انسانوں کیلئے کام کرتے ہیں ۔باتیں نہیں عمل کرتے ہیں،ظلم مرد یا عورت کوئی بھی کرسکتاہے۔مرد اور خواتین ظالم نہیں ہوتے ،ظالم وہ ہوتاہے جو طاقت رکھتاہے،میرے پاس 3 واقعات آئے تحقیق کی توقصور وارعورت ہی نکلی ۔عورت ظلم کرے گی تو وہ بھی ظالم ہے۔عورت کو معاشرے میں پاک صاف ،مظلوم ،بے چاری اور بے بس تصور کیا جاتاہے جس سے مجھے ذاتی طورپر تکلیف ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے مرداور عورت دونوں کو عزت عطا کی ہے ۔اس کو کسی سے عزت اور بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں ۔عورت عزت کماتی ہے او ر اس کی عزت اس کی کمائی ہے وہ کسی سے خیرات نہیں مانگتی ۔

جب مرد عورت پر ظلم کرے تو معاشرہ ا س کو ظالم کہے ،مجبوریوں کو جواز بنا کر یہ نہ کہہ دینا بے چاری مظلوم اور لاچار تھی ،گھریلوملازمین خاص طورپرکمسن بچیوں کے حوالے سے جس طرح واقعات ہورہے ہیں افسوک ناک صورت حال ہے ۔اس وقت فیصلے کرنے والی طاقتیں کہاں چلی جاتی ہیں جس وقت کمسن بچی ملازمہ پر ظلم ہورہا تھا۔ انسان اور جانور کا مقابلہ کریں توجانور بھی شرما جائے گا۔جانوروں کے بھی طور طریقے ہوتے ہیں،شیر جب پیٹ بھرا ہوتا ہے تو حملہ نہیں کرتا ۔انسانوں کا نفس بے قابوہوجاتاہے جس کی حوس قبر کی مٹی ہی بھرتی ہے۔

 دنیا: پہلے گھروں میں خواتین خود کام کرتی تھی یہ مسائل نہیں تھے کیاہمارا طرز زندگی تبدیل ہوگیاہے؟

عالیہ صارم برنی :غلامی پیسوں سے نہیں ،غلامی ذہن اور د ل سے کرائی جاتی ہے۔بعض خواتین کاخیال ہوتا ہے گھر پر بیٹھ کر زندگی ضائع ہورہی ہے۔ جب گھر سے باہر نکلتی ہیں تو اچھے کپڑے ،میک اپ اور ٹرانسپورٹ بھی چاہیے جب گھرآ ئیں گی تومحنت اور تھکاوٹ کی وجہ سے گھر کاکام بھی نہیں کر سکیں گی۔بعض خواتین ایسی بھی ہیں جو 10ہزار روپے کماتی ہیں اور ماسی کو بھی اتنے ہی دیتی ہیں ،ا ن کے ذہن میں بھی غلامی کا ایک عنصر آرہاہوتاہے کہ کمائیں گے تو گھر پر راج کریں،گھر میں کام کرنے کی قربانی کو بوجھ سمجھتی ہیں یہ غلطی پر ہیں ،عورت کی عزت پردے میں ہے ،دین کہتاہے جو قربانی دیتاہے وہ عظیم ہے،آج بھی کئی خواتین ایسی ہیں جو تعلیم یافتہ ہوتی ہیں لیکن جب شادی ہوکر سسرال جاتی ہیں تو اپنی ساری چیزوں کوایک طرف رکھ کر گھر کو وقت دیتی ہیں اور اولاد کی بہترین تربیت کرتے ہوئے معاشرے کو سدھارنے میں کردار اداکرتی ہیں۔

بد قسمتی سے کچھ گھرانے ایسے بھی ہیں جو شادی سے پہلے باقاعدہ سسرال والو ں سے شرط رکھتے ہیں بیٹی گھر کے کام نہیں کرے گی ،ماسی رکھ کر دینا کپڑے نہیں دھوئے گی ،آج موبائل ایک تحفہ اور عذاب بھی ہے ہم نے اس کو عذاب بنادیاہے۔ جو بچے گھروں میں کام کرتے ہیں وہ بے قصور اور بچے ہوتے ہیں ۔گھروں میں تشدد کے ذمہ دار بچوں کے والدین اورمالکن ہوتے ہیں۔معاشرے میں سوشل نیٹ ورک تباہ ہوگیا ہے اور نشانہ بچے بن رہے ہیں ۔

دنیا:کئی واقعات میں عور ت کا کردار بھی ظالمانہ ہوتا ہے کیا وجوہات ہیں؟

ایڈووکیٹ طلعت یاسمین : دنیا فورم کا شکریہ اداکروں گی جنہوں نے حالات کے پیش نظر اہم موضوع پر پروگرام کا انعقاد کیا۔ایسے فورم معاشرے کی بہتری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔کئی واقعات میں جن خواتین نے اپنے شوہروں کا قتل کیا ان سے وجوہات معلوم کیں تو انہوں نے بتایا ہم نے باقاعدہ موویز دیکھیں کہ کس طرح اپنے شوہر کو قتل کرسکتی ہیں۔ بڑے بڑے واقعات کے پیچھے ایک خاص ذہنیت ہوتی ہے جس کی وجہ سے خواتین اور مردوں پر مظالم کیے جاتے ہیں ۔چین او ر یورپی ممالک میں چھوٹے بچوں کو سب سے پہلے عزت کرنا اور تربیت کی جاتی ہے۔یہاں یہ سب ختم ہوتا جارہا ہے۔ گھروں میں کام کرنے والے زیادہ تر غریب اور مظلوم طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔جہاں ا ن کو حقوق نہیں دیئے جاتے ہیں۔خواتین میں احساس محرومی ،غربت اور وراثت میں حصہ نہ دینا عام بات ہے۔ہم یتیم اور بے بس قوم ہیں ۔

اداروں پر اعتماد نہیں ہوتا، مقدس ادارے اپنی حیثیت کھو بیٹھے ہیں ۔عوام پریشان ہیں ہم جائیں تو کہاں جا ئیں ۔اپنے نوجوان بچوں کیلئے دعا گو ہوں اللہ ان کو پریشانیوں سے محفوط رکھے۔معاشرے میں بے چارگی کی ایک وجہ سب کچھ ہم کو خود ہی کرنا ہے کوئی ادار ہ مدد کرنے کو تیار نہیں ۔

دنیا:متاثرہ گھریلو خواتین ویمن پولیس سے کس طرح رابطہ کریں ؟

 انسپکٹر حنا طارق : کراچی میں 3ویمن پولیس اسٹیشن سائوتھ، ایسٹ او ر ویسٹ میں ہیں ۔شہر میں 11ویمن اینڈ چلڈرن پروٹیکشن سیل ہیں جو تھانوں میں نہیں دفتروں میں ہیں ۔ ایک سیل زونل کی سطح پر ڈی آئی جی آفس اور ضلعی سطح پر ایس ایس پی آفس میں ہیں۔ جب سے ویمن پولیس اسٹیشن بنے ہیں خواتین کے جائز مسائل حل ہورہے ہیں ۔ جو خواتین شکایا ت کرتی ہیں تحقیق کے بعد باقاعدہ کارروائی کی جاتی ہے۔کچھ فلاحی اداروں سے رابطوں میں رہتے ہیں جو مفت قانونی مدد فراہم کررہے ہیں۔ خواتین پولیس اسٹیشن کا اپنا ایف آئی آر بک سسٹم ہوتا ہے۔جو خواتین تھانوں میں جانے سے ڈرتی اور خوف کھاتی ہیں وہ ویمن پولیس شکایتی سیل جائیں وہاں خواتین پر مشتمل عملہ ہوتا ہے جو متاثرہ خواتین کی ہرممکن مدد کرتا ہے ۔جو خواتین شکایات لے کر آتی ہیں بعض مرتبہ ان کے ساتھ بچے بھی ہوتے ہیں ان بچوں کو تھانے کے ماحول سے دورکھنے کیلئے ویمن پولیس اسٹیشن میں چلڈرن ڈیسک بھی قائم کی ہیں تاکہ بچے اچھے ماحو ل میں اپنا وقت گزار سکیں۔

دنیا : گھریلو ملازمین کی شکایات پر کیا کارروائی کرتی ہیں ؟،طاقتور طبقے کیخلاف کارروائی کیسے کرتی ہیں؟

انسپکٹر حنا طارق: ایک مرتبہ ڈیفنس کے علاقے سے شکایت آئی کہ ایک گھر میں 7 سالہ بچہ ملازم ہے ،مالکن بچے پر تشدد کرتی ہے،مسجد گھر کے سامنے تھی بچہ جمعہ کی نماز پڑھنے جاتا تھا ،وہاں کے لوگوں نے بتایا یہ بچہ صرف جمعہ کی نماز کے لیے باہر آتا ہے ،گھر کی چھت کے کونے پر بیٹھا رو رہا ہوتا ہے،واقعے کی تحقیق کے بعد کارروائی کی او ر بچے کو وہاں سے نکالا۔ایسے واقعات میں کئی چیلنجز کا سامناہوتا ہے جسے برداشت کرتے ہیں ۔ہمیں گھریلو ملازمین کے ساتھ اچھے رویئے رکھنے چاہییں۔ملازمین کے ساتھ ان کے بچے بھی ہوتے ہیں ان کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ہمیں خود سے اچھے کاموں کا آغازکرناہوگا۔ رانی پور کے واقعہ میں پیر کے گھر ملازمائیں فی بچہ پیدا کرنے پر 2ہزار کا انعام پاتی تھیں ۔پیسے کی لالچ بھی اس جانب دھکیلتی ہے اور وہ شکایت کرنے کے بجائے ظلم سہتی رہتی ہیں۔ 

ایڈووکیٹ طلعت یاسمین :جو گھریلو ملازمین اپنے ساتھ چھوٹے بچوں کو کام کیلئے ساتھ لاتے ہیں ان کے لئے اسکول میں پڑھانے کا انتظام کراتے ہیں اور اسکول میں کا م کی بھی سہولت فراہم کرتے ہیں بچہ پڑھائی کے ساتھ کام بھی کرتا ہے تاکہ اس کی صلاحیت میں اضافہ ہوتارہے۔چائلڈور ک اور چائلڈ لیبر میں فرق ہے۔چائلڈ لیبر میں بنیادی حقوق ختم ہوجاتے ہیں،چائلڈ ورک میں بچہ پڑھائی کے ساتھ کام بھی کرسکتا ہے۔چائلڈ لیبر او ر گھریلو ملازمین میں بہت فرق ہے۔پاکستان کے چاروں صوبوں میں گھریلو تشدد کے حوالے سے قانون منظور ہوچکا تشدد کرنے پر سزائیں ہیں،ملک میں قانون ہیں نافذ کرنے میں بے بس ہیں۔ معاشرے میں ظالمانہ حاکمیت کو نکالنا ہو گا ۔ گھر میں ماسی اپنے ساتھ 4سال کی بچی بھی لاتی ہے اس سے تھوڑا تھوڑا کام کراتی ہے اس سے کہا ا س کو ایک طرف بٹھاؤ کام نہ کراؤ۔ماسی نے کہا اس کا باپ بیمار ہے وہ کہتا ہے یہ بھی کمانے جائے گی۔بعض والدین کی سوچ ہوتی ہے کہ بچے پیدا ہی کمانے کیلئے ہوتے ہیں جب تک یہ سوچ ہوگی معاشرہ کیسے بہترہوگا۔ریاست بھی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کررہی۔کمزور کو اس کا حق اور تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔

عالیہ صارم برنی :ہمیں مسائل حل کرنے کی بات کرنی چاہیے،الزام تراشی سے مسائل حل نہیں ہوتے۔جن گھروں میں چھوٹے بچے ملازمت کرتے ہیں ان کے ذمہ دار والدین اور مالکن دونوں ہیں ،بے قصور صر ف بچے ہیں ۔

محمد علی جناح یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات نے خاکہ پیش کیا

دنیا فورم میں محمد علی جناح یونیورسٹی کی کمیونیکیشن سوسائٹی کے طلبہ و طالبات معاذ اللہ خان،دعا سرائی ،محمد حمزہ ،محمد معیز، لاریب طاہر، طبیہ خان ،کشمالہ ،عائشہ ذوہا، عمر علی ،عائشہ عبدالحبیب ،حنیزہ او ر سیدہ فاطمہ نے گھریلو ملازمین پر تشدد کے حوالے سے خاکہ پیش کیا۔کشمالہ اور عائشہ کی تحریر پر مشتمل ڈرامے میں گھریلو ملازمین پر ہونے والے تشدد ،وجوہات اور قانونی مدد کے پہلو کو نہایت عمدہ انداز میں اجاگرکیاگیا تھا۔ماہر نفسیات اور ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی کے بانی عمران یوسف نے بہترین خاکہ پیش کرنے پر طلباء کو 10ہزار روپے نقد انعام دیااور دو طلبا ء جو یونیورسٹی میں تعلیم کے ساتھ کال سینٹر میں ملازمت کر کے گھر اور تعلیم کے اخراجات اٹھاتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کیلئے 20,20 ہزار روپے دیئے۔

ڈرامے کی سرپرستی پر سوشل سائنس کی ٹیچر بانو قدسیہ کو بھی برانڈڈ سوٹ دینے کا اعلان کیا جس پر فورم میں موجود شرکاء اور طلبہ و طالبات نے تالیاں بجا کر اور شور کرکے خوشی کا اظہار کیا۔ٹیبلو میں کردار اداکرنے والے طلبہ و طالبات نے کہا کہ ڈرامے کی کامیابی کا سہرا کسی ایک پر نہیں حصہ لینے والے طلباء ،ٹیچر اور خصوصی طورپر ایڈیٹرفورم کو جاتاہے جن کے مشوروں اور حوصلہ افزائی سے معاشرے کی عکاسی کرنے کی کوشش کی گئی ۔ دنیا فورم کے پلیٹ فارم سے معاشرے کا اصل چہرہ پیش کرنے میں کی کوشش کی گئی تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

پاکستان کودیانتدار اور باصلاحیت لیڈر چاہیے، عوام کردار اداکریں

شرکاء: ڈاکٹر عصمت آراء،چیئرپرسن شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی۔ڈاکٹر معیز خان ،اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچی ۔ڈاکٹر معروف بن رئوف ،اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تعلیم اور صدر سوسائٹی فار سوشل سائنسز آف ریسرچ ایسوسی ایشن ۔ نورالعارفین صدیقی ، معروف ٹی وی اینکر ۔ شعبہ ابلاغ عامہ کے طلباء زیان احمد خان اور جویریہ بنت شاہدطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔