انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

دنیا فورم

تحریر : میزبان : مصطفی حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن۔عکاسی ،ماجد حسین لے آئوٹ : سید ندیم الحسن


شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

کوٹا سسٹم نے کراچی والوں کو انکے حق سے محروم کردیا:  ریحان ہاشمی

وعدہ ہے پی ایف سی کا پیسہ کراچی پر ہی لگے گا:  ڈاکٹر اسامہ رضی

سیاسی جماعتوں کے منشور اشتہار جیسے ہوتے ہیں:  سردار عبدالرحیم

ٹیکس صرف تنخواہ دا رپر کیوں،زرعی سیکٹر پر کیوں نہیں لگتا؟ڈاکٹر حنا خان

ووٹر اپنی پارٹی سے پوچھے منشور پر کتنا عمل ہوا :  ڈاکٹر معیز خان

موضوع: ’’سیاسی جماعتوں کے منشورکتنے حقیقی کتنے انتخابی‘‘

میڈیاریاست کا چوتھا ستون قرار دیاجاتا ہے اور کسی بھی عمارت کا کوئی ایک ستون بھی کمزور پڑجائے تو عمارت کا زیادہ دیر کھڑا رہنامشکل ہوتا ہے۔اس چوتھے ستون کی ذمہ داری جہاں عوام کو حالات سے باخبر رکھنا ہوتا ہے وہیں ان کی تربیت بھی اس کے کام میں شامل ہوتی ہے۔دنیا فورم اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے گزشتہ چھ سال سے جہاں عوام کومعاشی،سماجی اور سیاسی معاملات میں آگاہی فراہم کررہا ہے وہیں ان کے سامنے اس کے حل بھی پیش کرتا ہے اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مرتبہ ہم نے جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ کے تعاون سے سیاسی جماعتوں کے منشور پر نہایت اہم دنیا فورم کا اہتمام کیا۔انچارج شعبہ تاریخ ڈاکٹر حنا خان اور اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹرمعیز خان کے تعاون سے ہمیشہ شعبہ تاریخ میں بہترین فورم ہوئے ہیں اس مرتبہ بھی موضوع کی مناسبت سے کئی اہم نکات اٹھائے گئے ،طلبہ طالبات نے بھی بھرپور حصہ لیا اور سوالات کے ساتھ تجاویز بھی دیں۔سیاسی جماعتوں کے منشور میں زرعی ٹیکس اور حقیقی نعروں پر زور دیاگیا ۔جماعت اسلامی ،ایم کیوایم اور مسلم لیگ فنکشنل کے رہنمائوں نے بتایا کہ منشور کی تیاری میں زمینی حقائق کو مدنظر رکھاجاتا ہے ۔

منشور تیارکرنے والوں میں ماہرین شامل ہوتے ہیں یہاں یہ بات زیادہ زور دے کر کہی گئی کہ عوام کا کام ہے کہ وہ اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کے منشور پر نظر رکھیں اور جسے ووٹ دیں اس سے پوچھتے رہیں کہ تم نے اپنے منشور پر کتنا عمل کیا۔جب ہم اپنی سیاسی جماعت کا احتساب شروع کردینگے تو حالات بہتر ہونے لگیں گے لیکن عموماً ہمارا زور مخالف کے منشور پر ہوتا ہے ۔یہ بھی ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن تمام سیاسی جماعتوں کے لئے یکساں مواقع پیدا کرے ،کسی کو نوازنے او رکسی کو نظرانداز کرنے کی پالیسی ترک کی جائے اور حقیقی ،صاف وشفاف انتخابات یقینی بنائے جائیں تاکہ ملک میں واقعی جمہوری ادارے کام کرسکیں۔آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔(شکریہ)

مصطفی حبیب صدیقی(ایڈیٹر فورم ،روزنامہ دنیا کراچی)

برائے رابطہ:

0092-3444473215،0092-3212699629

ای میل:mustafa.habib@dunya.com.pk

کوٹا سسٹم کے باعث کراچی کے تعلیمی اداروں میں اچھی پوزیشن لانے والے طلباء کو بھی داخلہ نہیں ملتا۔ٹیکس شہریوں پرلگتے ہیں جبکہ جاگیردارایک 

فیصد بھی ٹیکس نہیں دیتا،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایم(ریحان ہاشمی)

پارلیمنٹ پر وہ لوگ مسلط ہیں جو درحقیقت عوام سے منتخب نہیں ہوتے انکے علاقوں میں کوئی بات بھی نہیں کرسکتا۔انکی 70فیصد علاقوں پر جاگیرداری ہوتی ہے۔شہری علاقے بھی ان سے متاثر ہیں ،نائب امیر جماعت اسلامی کراچی(اسامہ رضی)

ملک کا بنیادی مسئلہ قانون کی عملداری ہے۔آئین کو اہمیت نہیں دی جاتی۔جن بڑی پارٹیوں کی عوام میں پزیرائی ہوتی ہے وہ بھی کسی کے حکم پر چلتی ہیں،کرپشن ملک کی جڑوں میں ہے،صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ(سردار عبدالرحیم)

 بحیثیت پاکستانی اور ووٹر ہمارا کیا حق بنتاہے یہ سمجھیں۔سیاسی پارٹیوں کے نمائندے آسمان سے نہیں اسی معاشرے سے آتے ہیں ۔جب تک ہم ان سے پوچھیں گے نہیں مسائل حل نہیں ہوں گے،اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچی(ڈاکٹرمعیز خان)

دنیا میں سب سے پرانی سیاسی پارٹی ڈیموکریٹکس امریکا میں 1828 سے قائم ہے جس کے منشور موجودہ حالات کو پیش نظررکھ کر بنائے جاتے ہیں۔ منشور وقت کے حساب سے تبدیل ہوتے ہیں،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچی(ڈاکٹر حناخان)

دنیا: کوٹاسسٹم ختم کرنا ایم کیوایم کے منشور میں تھا کامیابی کیوں نہیں مل سکی ؟

 ریحان ہاشمی : ایم کیوایم بننے کی بنیادی وجہ ماضی میں ہونے والا استحصال تھا جس کی وجہ سے لوگوں نے دیگر جماعتوں کوچھوڑ کر ایم کیو ایم کو ووٹ دیا ۔کوٹا سسٹم کی وجہ سے کراچی والے اپنے حق سے محروم ہیں۔ 10 سال سے کراچی کو  صوبائی فنانس کمیشن پی ایف سی ایوارڈ نہیں مل رہا یہ اربوں روپے کہاں جارہے ہیں؟،یہ رقم واجب الادا ہے اس کے باوجودبھی ادائیگی نہیں ہورہی ۔منشور میں یہ بات شامل ہے کہ مردم شماری آئین کی روح سے منصفانہ ہونی چاہیے۔ ہمار ا شروع سے منشور رہا ہے کہ عوام کو بااختیار بنایا جائے۔ہم ڈی سینٹریلائزیشن اور حقیقت پر مبنی فیصلوں کی بات کرتے ہیں۔ ملک میں مخصوص ذہنیت نے لوگوں کو اپنے طا بع رکھاہواہے۔بد قسمتی سے ہم آج تک برطانوی نظام کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔کیا ہم آج بھی انگریزوں کے بنائے ہوئے نظام پر نہیں چل  رہے؟۔انگریز اپنے طابع رہنے والوں کو ہی اختیارات دے کر گیا ہے۔آج بھی عدالتوں میں پرانا نظام چل رہا ہے۔ حکومتی اہم ادارے پرانے نظام کے تحت چل رہے ہیں۔

 ملک میں جاگیردارانہ نظام اور قوانین ہیں۔سارے معاملات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کسی دن انگریز سامراج آئے گا اور کہے گا سو سال ہوگئے ہیں اب ملک واپس ہمارے حوالے کرو۔

دنیا: ایم کیوایم ماضی میں کئی حکومتوں کی اتحادی رہی ، مسائل حل کیوں نہیں ہوئے؟

ریحان ہاشمی :ایم کیوایم نے ہمیشہ مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھا تاکہ مسائل حل ہوں۔ہم کراچی میں تمام طبقوں میں رہنے والوں کی بات کرتے ہیں۔کراچی کے شہریوں کے نصیب میں غائب ہونا لکھا ہے۔جبری گمشدگی ہو یا مردم شماری سے 5 ماہ قبل مردم شماری کمیشن نے جن لوگوں کو ’’لاپتہ‘‘ کیا تھا اس پر وزیراعظم سے بھی بات کی کہ ا س مسئلے کو حل کرائیں ۔اس کے بعد 60لاکھ لوگ جو گنتی سے غائب کردیئے گئے تھے ان کا اضافہ ہوا۔کراچی کے تعلیمی ادارے جہاں کوٹا سسٹم کا اطلاق ہے اچھی پوزیشن  لانے والے طلباء کو بھی داخلہ نہیں ملتا ۔یہ حقیقت ہے ایساہی ہورہاہے اس کو چھپا نہیں سکتے،ٹیکس بھی شہریوں پرلگتے ہیں لیکن جاگیردارانہ نظام میں کمانے والا ایک فیصد بھی ٹیکس نہیں دیتا،یہ تفریق ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

دنیا: سیاسی جماعتوں کے منشورمیں دعوے تو بہت کیئے جاتے ہیں عمل نہیں ہوتاکیاوجہ ہے؟

ڈاکٹراسامہ رضی: بدقسمتی سے ملک میں انتخابی نتائج کے فیصلے بندکمروں میں ہوتے ہیں ۔انتخابی منشور اور انتخابات صرف ڈرامے ہیں سب چیزیں پہلے سے طے ہوتی ہیں کہ کس کو لانا ہے کس کو نہیں لانا ۔اس کا عملی مظاہرہ بلدیاتی انتخابات میں دیکھ لیں۔ مقتدر لوگ جن کو حکومت دیتے ہیں وہی کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی کو کراچی شہر  میں رہنے والے ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے مینڈیٹ دیا جو چھینا گیا۔ہمیں مینڈیٹ کراچی کی حد تک ملاہے ۔کراچی میں 3 مرتبہ مینڈیٹ ملا،دو مرتبہ عبدالستار افغانی اور ایک مرتبہ نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کو میئر بنایا۔ بڑھ چڑ کر کام کیا ،اس عرصے میں ہمارے کاموں کا موازنہ کریں موجودہ حکومت سے زیادہ کام نظر آئیں گے۔کراچی کہتا ہے مجھے میرا حق دو،بلدیہ عظمیٰ کے پاس کراچی کا جو بھی فنڈہوگاوہ کراچی پر لگے گا۔عوام کا پیسہ عوام پرخرچ کریں گے۔ کراچی کا ایک پیسہ بھی ہماری جیب میں نہیں جائے گا ماضی میں اس کی مثال موجود ہے۔نعمت اللہ خان میئر بننے کے  بعد دفتر گئے تو انہوں نے کھانے کیلئے اپنی جیب سے 100کا نوٹ نکالااور ملازم سے کہا بہت بھوک لگی ہے صبح سے کچھ کھایا نہیں ہے  6برگر لے آؤ اسو قت 20روپے کا برگر آتاتھا۔ملازم نے کہا کہ آپ کھانا پی سی سے منگوالیں ،پہلے جو ایڈمنسٹریٹر تھے ان کا ناشتہ اور کھانا کے ایم سی کے فنڈز سے پی سی سے آتا تھا۔ نعمت اللہ خان نے 

کہا  یہ عوام کا پیسہ ہے ایک پیسہ بھی اپنے اوپر خرچ کرنا حرام سمجھتا ہوں۔چائے اور کھانا اپنے پیسوں سے کھاؤں گا۔میں عوام کی خدمت کیلئے آیا ہوں اس خدمت کے نتیجے میں ہمیں صوبائی او روفاقی حکومت نہیں ملی۔اس کا جواب عوام بہترجانتے ہیں ۔ دوبارہ خدمت کاموقع ملا تو کارکردگی منشور سے بڑھ کر ہوگی۔جن لوگوں نے بند کمروں میں فیصلے کیئے کہ کراچی وڈیروں کو دینا ہے جس کی نمائندگی پی پی پی کررہی ہے ۔المیہ ہے 3لاکھ ووٹ لینے والے جیت گئے جبکہ9 لاکھ ووٹ لینے والے ہارگئے۔یہ جمہوریت ہے جس کو عوا م نے ووٹ دیا وہ ہار گیا اور جس کو ووٹ نہیں دیا وہ جیت گیا،دنیا میں جمہوریت کے نام پر ایسا کہیں نہیں ہوتا جو یہاں ہورہاہے۔کراچی کی 193یوسی ہمارے پاس ہیں پبلک کا ووٹ ہم جیت چکے ہیں۔ ہمار ا وعدہ ہے صوبائی فنانس کمیشن پی ایف سی ایوارڈ کا جوبھی پیسہ ملاوہ کراچی پرہی لگے گا۔

دنیا:منشور کیسے بنتا ہے اور کیسے پیش کیا جاتاہے؟

 سردار عبدالرحیم : سیاسی جماعتوں کا کام دراصل لوگوں کی فلاح کا کام ہوتاہے۔ہمار امنشور متحد سندھ اورمضبوط پاکستان ہے۔اگر تفریق کی سیاست ہوتی رہی تو  ملک مضبوط ہوگانہ ترقی کرسکے گا۔منشور وہی بہتر ہوتا ہے جس پرعملدرآمد ممکن ہو۔ہمیں نوجوانوں کی بہتری اور روزگار کے حوالے سے کام کرنا ہوگا تب ہی ملک ترقی کرے گا۔بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں کے منشور ایسے ہوتے ہیں جیسے مارکیٹنگ کمپنیوں کے اشتہار  جسے عوام حقیقت سمجھتے ہیں جب کہ حقیقت تھوڑی مختلف ہوتی ہے ۔ 

دنیا:فنکشنل لیگ نے منشور پر کتنا عمل کیا؟ منشور کون بناتاہے؟

سردار عبدالرحیم :منشور بنانے والے پڑھے لکھے ،ایم پی اے اور ایم این ایز ہوتے ہیں جو ساری چیزوں کا جائزہ لے کر منشور بناتے ہیں ۔منشور ایسا ہونا چاہیے جسے عملی جامع پہنایا جاسکے۔ چاند سے تارے توڑ کر لانے کی بات نہیں کرنی چاہیے ایسے منشور کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

سیاسی پارٹیاں عوام کے مفاد میں کام کریں گی تو مسائل حل ہوں گے۔ملک کا بنیادی مسئلہ قانون کی عملداری ہے۔ آئین کو اہمیت نہیں دی جاتی،بڑی بڑی پارٹیوں کی عوام میں پزیرائی ہوتی ہے وہ بھی کسی کے حکم پر چلتی ہیں،کرپشن ملک کی جڑوں میں داخل ہوگئی ہے۔ ڈائریکٹر جنرل سے لے کر چپڑاسی تک  جب تک بخشش یا کمیشن نہیں ہوگا کام نہیں ہوگا۔ بجٹ وہاں لگائے جاتے ہیں جہاں کمیشن ہوتاہے۔ہماری سوچ بن گئی ہے کرپشن ہوگی تو کام ہوگا۔آزادی پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی جاتی ۔آزادی کی چوکیداری کرنی پڑتی ہے۔ نہیں کریں گے تو چلی جائے گی،ہم نے آزادی کی قدر نہیں کی جس کی وجہ سے مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔سنگاپور کراچی سے بھی چھوٹا ہے، جہاں آلو ،پیاز تک پیدا نہیں ہوتا پانی بھی ملائیشیا سے لیاجاتا ہے۔ وہاں کرپشن نہیں قانون کی عملداری ہے۔ قوانین پر عمل ہوتاہے،وہ آزادی کا دفاع کرتے ہیں۔ دنیا کا بڑا معاشی ملک ہے ۔ برآمدات بھارت سے زیادہ ہے۔ سارے کام ایک نظام کے تحت ہوتے ہیں ۔ کرپشن نام کی کوئی چیز نہیں ۔ جب تک قانون کی پاسداری نہیں کریں گے چیزیں بہتر نہیں ہوں گی ۔قانون کی دھجیاں بکھیرنا عام سی بات ہے۔سگنلز توڑے جارہے ہوتے ہیں،اہم سڑکوں پر موٹرسائیکل مخالف سمت سے آرہی ہوتی ہیں۔

دنیا: سیاسی جماعتوں کے منشور صرف دکھاوا یاعمل بھی ہوتاہے؟

 ڈاکٹر حنا خان :کسی سیاسی پارٹی میں حقیقی تبدیلی نظر نہیں آرہی۔ منشورمیں لوگوں کا نظریہ بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔پارٹی کے منشور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے بنائے جاتے ہیں ۔دنیا میں سب سے پرانی سیاسی پارٹی ڈیمو کریٹ امریکا میں 1828 سے قائم ہے جس کے منشور موجودہ حالات کو پیش نظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو معاشی مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے منشور اور پالیسی بنانی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کے منشور وقت کے حساب سے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ صرف منشور تحریرکردینے سے مسائل حل نہیں ہوتے عمل ضروری ہوتا ہے ۔منشور میں وہی باتیں شامل ہوں جن پر عمل ممکن ہو۔بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں کے منشور صرف انتخابات تک محدود ہوتے ہیں ۔ حکومت میں آکر منشور بھو ل جاتے ہیں۔ ملک میں تبدیلی بس ایک نعرہ بن گیا ہے حقیقی تبدیلی نظر نہیں آرہی ۔ موجودہ حالات میں پاکستان کی معاشی صورت حال بہت خراب ہے۔قیام پاکستان سے اب تک آج بھی ملک معاشی طور پر بد حال ہے،کسی سیاسی جماعت کے منشور میں معاشی صورت حال بہتر اور تمام لوگوں پر ٹیکس پرعملداری نظر نہیں آتی۔پاکستا ن زرعی ملک ہے اس کے باوجود ایگری کلچر سیکٹر میں ٹیکس نہیں لگایا جاتا صرف تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کیوں لگایا جاتاہے؟جو مگرمچھ ٹیکس نہیں دیتے ان سے ٹیکس وصول کیوں نہیں کیا جاتا۔سیاسی پارٹیاں ان مسائل کو بھی اپنے منشور میں شامل کریں اور ترجیح بنیادوں پر عملدرآمد کرائیں، اس سے معاشی صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔

دنیا: سیاسی جماعتیں منشور کس طرح بہتر بناسکتی اور عمل کرسکتی ہیں ؟

 اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر معیز: منشور پر عمل نہ ہونے کی ذمہ دار سیاسی پارٹیاں نہیں ہم لوگ ہیں ۔کیاہم نے آج تک سیاسی جماعتوں سے معلوم کیا کہ منشور پر عمل کیوں نہیں ہورہا؟جس پارٹی کو ووٹ دیا کیا اس سے معلوم کیا کہ انتخابات سے پہلے جو وعدے کیئے تھے وہ پورے کیوں نہیں کیئے ؟ سیاسی پارٹیاں دھائیوں سے حکومت کرتی آرہی ہیں کیا پارٹی کے ووٹر نے اپنی پارٹی سے منشور پر عمل نہ ہونے کا معلوم کیا؟ہم الزامات تو فوری لگاتے ہیں لیکن اپنے رویوں پر غور نہیں کرتے بحیثیت پاکستانی اور ووٹر ہمارا کیا حق  بنتاہے، سیاسی پارٹیوں کے نمائندے آسمان نے نہیں اسی معاشرے سے آئے ہیں ۔ جب تک ہم ان سے پوچھیں گے نہیں  مسائل حل نہیں ہوں گے۔ہم سب اسی معاشرے کا حصہ ہیں سب کو اپنا کردار ادا کرناہوگا۔ جماعت اسلامی کوبھی صوبے میں حکومت کرنے کا موقع ملا تھا۔ ایم کیوایم بننے کی بنیادی وجہ کوٹا سسٹم کا خاتمہ تھا،او ران کے گورنر نے بھی کوٹا سسٹم کی مدت میں اضافہ کیا۔سیاسی جماعتوں کے سارے منشور بہت اچھے ہیں عمل نہیں ہوتا۔ایم کیوایم اورجماعت اسلامی نے گراؤنڈ سے لوگوں کو اسمبلیوں میں بھیجاکسی او رسیاسی پارٹی میں یہ چیزیں نہیں۔

طلبہ وطالبات کے سوالات اور تجاویز

دنیا فورم میں اساتذہ اور طلبہ وطالبات نے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے سوالات کیئے اورتجاویز بھی دیں ۔ شعبہ تاریخ کے طالب علم شہیر احمد نے کہا کہ ملک میں نوجوان اور پڑھے لکھے افراد کو روزگار کے مواقع میسر نہیں ۔بے روزگاری دورکرنے کیلئے سیاسی جماعتیں کیا اقدامات کررہی ہیں ؟۔ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے رکن ریحان ہاشمی نے کہا کہ بے روزگاری ختم کرنے کیلئے طویل مدتی پالیسی اپنانا ہوگی۔جنوبی کوریا  پاکستان کے ٹھکرائے ہوئے ڈاکٹر محبوب کی پالسیوں پر عمل کرکے ایشین ٹائیگر بن گیااور ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ غورکریں تو بہت پیچھے چلے گئے ہیں ۔سنجیدگی سے چیزوں کو دیکھتے ہوئے آگے جاناہے۔شہر میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہو توغیر ملکی سرمایہ کاری آتی ہے ۔صنعتیں لگتی ہیں اور لوگوں کو روزگار ملتاہے ۔

بدقسمتی سے کراچی کے حالات ایک منصوبہ بند ی کے تحت خراب  کیے گئے جس سے بے روزگاری سمیت دیگر مسائل میں اضافہ ہورہاہے۔شعبہ تاریخ کے طالب علم یاسر علی نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے منشور میں موجودہ معاشی حالات کو بہتر کرنے کیلئے کوئی چیز شامل نہیں ۔ 75 سالوں سے یہ مسائل چلتے آرہے ہیں حل کیوں نہیں ہورہے ؟جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر ڈاکٹر اسامہ رضی نے کہاکہ کنویں میں کوئی مردار چیز ہو جس سے پانی گندا ور بدبودارآرہا ہو اس کو دورکرنے کیلئے پانی نکالتے رہیں او ر وہ چیز نہ نکالیں جس کی وجہ سے پانی گندا ہوا تو پانی نکالنے کی محنت فضول ہوگی ۔ہم 75سال سے پانی نکال رہے ہیں ،گندی چیز نہیں نکال رہے،جس سے مسائل حل نہیں ہورہے۔1947کو ہم سے کہا گیا ہم آزاد ہوگئے،لیکن انگریزوں کا نظام جوقائم تھا وہی رہا۔ہمارے اقتدار اعلیٰ انگریزوں کی غلامی کرتے ہوئے ملک لوٹتے رہے اورعوام آج بھی ویسے ہیں جیسے پہلے تھے ۔ آج بھی اختیارات ان ہی جاگیرداروں کے پاس ہیں جواپنے اوپر نہیں عوام پر ٹیکس لگاتے ہیں۔ عوام کے پاس کوئی اختیار نہیں ۔اختیارات صرف جاگیرداروں ، سول بیوروکریسی اور کرپشن سے دولت مند بننے والوں کے پاس ہے۔یہ لوگ ایک فیصد سے بھی کم ہیں ۔آج تک پارلیمنٹ کو اقتدار اعلیٰ منتقل نہیں ہوا۔پارلیمنٹ پر وہ لوگ مسلط ہوتے ہیں جوعوام سے منتخب نہیں ہوتے ان کے علاقوں میں ہم بات بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ان کی 70فیصد علاقوں پر جاگیرداری ہوتی ہے۔وہاں انسانوں کے ساتھ جانوروں جیساسلوک ہوتاہے،شہری علاقے بھی ان جاگیرداروں سے متاثر ہیں۔شہروں میں بھی عوام کی رائے آزاد نہیں ہے۔سارے فیصلے بند کمروں میں ہوتے ہیں کہ کس کو کتنی سیٹیں ملیں گی۔فیصلے پہلے ہوتے ہیں انتخابی ڈرامہ بعد میں ہوتا ہے۔ اقتدار اعلیٰ عوام یا پارلیمنٹ کو نہیں ملتا۔

جب تک یہ صورت حال رہے گی پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔شعبہ تاریخ کی انچارج ڈاکٹر حنا خان نے کہا اب سیاسی پارٹیوں کے منشور میں موسمیاتی تبدیلی بھی شامل ہورہی ہے۔طالبہ اقرا ء محبوب نے کہاسیاسی جماعتیں منشور توبناتی ہیں عمل نہیں کرتیں۔سیاسی جماعتوں کے کردار اتنے اچھے نہیں ہوتے کہ ہم سیاستدان بنیں لوگ کہتے ہیں ان چیزوں سے دور رہنا ورنہ مستقبل تباہ ہوجائے گا ۔کوٹا سسٹم کی وجہ سے اپنے شہرمیں ملازمت نہیں ملتی ایسا کیوں ہے؟۔طالب علم ساحر حسین نے کہا کہ اچھی جمہوریت کیلئے سیاسی پارٹیوں کا کردار کیساہوناچاہیے؟۔مسلم لیگ فنکشنل سندھ کے صدر سردارعبدالرحیم نے کہا کہ سیاسی پارٹیاں عوام کی حمایت اور ووٹ سے بنتی ہیں توجمہوریت کو فائدہ ہوگا۔ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر بنائی جانے والی جماعت عوامی مفاد میں نہیں ہوتی جلد ختم ہوجاتی ہے اور جمہوریت کو نقصان پہنچاتی ہیں ۔تاریخ میں ایسی بہت ساری مثالیں ملتی ہیں جو پارٹیاں ڈرائنگ میں بیٹھ کر بنائی گئی وہ ختم ہوگئیں اور جو عوام کی حمایت سے بنائی گئیں وہ اب بھی قائم ہیں۔ شعبہ تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر معیزخان نے کہا کہ پاکستان کے حالات 75سال سے جس طرف جارہے ہیں او ر سیاست کے نام پر ملک میں جوکچھ ہورہاہے،لگتا ہے عوام ہاتھ جوڑ کر انگریزوں کو خط لکھیں گے کہ دوبارہ آکر ہم پر حکومت کرلو۔ شعبہ تاریخ کی طالبہ انعم یوسف زئی نے کہا کہ تعلیم اورخواتین کیلئے پبلک پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کیلئے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟۔سردار عبدالرحیم نے کہا کہ فنکشنل لیگ کا منشور ہے حکومتی عہدیداروں کے بچے بیرون ملک کے بجائے اپنے ملک میں ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔

بچوں کے باہر جانے کے خلاف نہیں تعلیمی نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ ہونا چاہیے یہ معاشرے کے معز ز اور قابل احترام ہوتے ہیں آج ہم جوکچھ بھی ہیں ان ہی کی بدولت ہیں،خواتین کے حقوق کیلئے وکالت کرتا رہا ہوں ۔مرداور خواتین دونوں کو برابری کی سطح پر ملازمت اور تنخواہ ملنی چاہیے۔خواتین معاشی طور پر مضبوط ہوں گی تو بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ دیگر گھریلومعاملات بھی بہتر کرسکتی ہیں ہمیں ان کو سپورٹ کرنی چاہیے۔ایم کیوایم رابطہ کمیٹی کے رکن ریحان ہاشمی نے کہا کہ اخبارات میں ملازمت کے اشتہارات آتے ہیں جن میں لکھا ہوتاہے کراچی کے ڈومیسائل والے زحمت نہ کریں یہ مسائل کوٹا سسٹم کی وجہ سے ہیں جس کے خلاف ہم بات کررہے ہیں۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی با ر اسمبلی میں لیڈرآف اپوزیشن خاتون رانا انصار ایم کیوایم کی طرف سے نامزد کی گئی ہیں ۔ایم کیوا یم نے خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے کام کیاہے۔سردار عبدالرحیم نے کہا کہ 25 سال سے صنعتیں کراچی سے منتقل ہو رہی ہیں ،امن و امان کی وجہ سے ماحول اچھا نہیں ہے۔ خراب صورت حال کی وجہ سے صنعت کیسے پروان چڑھے گی۔شعبہ تاریخ کے ارباب محسود نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو اپنے منشور میں شامل کیوں نہیں کرتیں؟۔طالبہ حریم نے کہا کہ سارے فیصلے بند کمروں میں ہوتے ہیں تو یہ مسائل حل کیو ں نہیں ہوتے۔طالبہ بختاور نے کہا کہ ہمارے انتخابات سیاسی ڈرامے ہوتے ہیں تو سیاسی جماعتیں ان ڈراموں کا حصہ کیوں بنتی ہیں؟۔

ملک امتیاز  نے کہا یونیورسٹی میں کئی قابل ہونہار طلباء ہوتے ہیں لیکن یہاں سے جانے کے بعد ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے دردر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں ،اوردیگر چھوٹے کاروبار شروع کردیتے ہیں ۔ان بچوں کا مستقبل تباہ ہوجاتاہے ۔سیاسی جماعتوں کے نمائندے اسمبلیوں میں ہوتے ہیں وہ ان قابل بچوں کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کیوں نہیں کرتے؟ ۔ ایم کیوایم کے ریحان ہاشمی نے کہا کہ ہمارے منشور میں ہے کہ بجٹ میں تعلیم کیلئے 5فیصد جی ڈی پی مختص ہونا چاہیے جو نہیں ہوتا۔کراچی اور این ای ڈی یونیورسٹی میں کئی چیزوں کو بہتر کرنے میں کئی مشکلات کا سامنا ہوا جتنا بہتر کرسکتے تھے کیا۔سردار عبدالرحیم نے کہاکہ وڈیرہ کسی آدمی کا نام نہیں، وڈیرہ ایک ذہنیت کا نام ہے،جو طاقت اور اختیار چاہتاہے،تاکہ اس کے ماتحت لوگ اس کے زیر اثر رہیں ۔وہ اپنے ساتھ باڈی گارڈز رکھتا ہے تاکہ لوگوں پر اپنا رعب و دبدبا رکھے۔جب یہ اقتدار میں آتاہے تو ایس ایچ او ا س کامرضی کا ہونا چاہیے،ضلع کا ایس ایس پی بھی اس کا مرضی کا ہوناچاہیے۔ڈی سی ،تحصیل دار ا س کی مرضی کے مطابق ہونے چاہیے۔اس کے اختیار میں سار ی چیزیں ہوں تاکہ وہ 

اپنے علاقے میں لوگوں پر راج کرسکے اس کو وڈیرہ شاہی کہتے ہیںاس سے لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کرتا ہے اوردیگر فائدے بھی لیتاہے۔

خواتین سے بدتمیزی بھی کرتاہے اور علاقے کے لوگوں کو دباؤ میں رکھنے کیلئے نجی جیل بناکر تشدد بھی کرتاہے تاکہ علاقے میں میرا خوف اور واہ واہ ہو۔یہی ذہنیت اگر شہروں میں سیاسی جماعتوں یا لوگو ں میں ہے تویہ بھی وڈیرہ شاہی ہے۔اسی لیے ہم قانون کی عملداری کی بات کرتے ہیں جو وڈیرہ شاہی کی نفی کرتاہے۔جوبھی چیز قانون کے مطابق ہوگی اسی چیز کی اہمیت ہوگی او رجو چیز بھی قانون کے خلاف ہوگی خواہ سامنے کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو اسے جواب دینا ہوگا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

پاکستان کودیانتدار اور باصلاحیت لیڈر چاہیے، عوام کردار اداکریں

شرکاء: ڈاکٹر عصمت آراء،چیئرپرسن شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی۔ڈاکٹر معیز خان ،اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچی ۔ڈاکٹر معروف بن رئوف ،اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تعلیم اور صدر سوسائٹی فار سوشل سائنسز آف ریسرچ ایسوسی ایشن ۔ نورالعارفین صدیقی ، معروف ٹی وی اینکر ۔ شعبہ ابلاغ عامہ کے طلباء زیان احمد خان اور جویریہ بنت شاہدطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔