صدرزرداری کا دورہ لاہور،پارٹی اراکین کے تحفظات

قومی سیاست میں اپوزیشن اپنی سیاست اور کردار کے حوالے سے یکسو نہیں ہو پا رہی جس کی وجہ سے حکومت پر سیاسی دبائو بڑھتا نظر نہیں آ تا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اپوزیشن خصوصاً پی ٹی آئی کی حکمت عملی نے حکومت کو اس کے دبائو سے آزاد کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی، جس کی پہچان ہی اس کا مزاحمتی اور احتجاجی سیاست رہی ہے،اندرونی بحران سے دوچار ہے۔
احتجاجی عمل کو آگے چلانے کیلئے اسے دیگر جماعتوں کا سارا لینا پڑ رہا ہے ۔ اپوزیشن کی دیگر جماعتیں حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاجی تحریک پر تو آمادہ نظر آتی نہیں مگر وہ اس احتجاجی عمل کو حکومت تک محدود رکھنا چاہتی ہے۔اس حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کی مشترکہ حکمت عملی طے کرنے کیلئے اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کی کانفرنس کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ تحریک تحفظ آئین پاکستان کے پلیٹ فارم سے مذکورہ کانفرنس کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ اس میں اپوزیشن جماعتیں آئین پاکستان کے تحفظ، جمہوریت کے تسلسل اور نئے انتخابات کے انعقاد پر اتفاق کرنا چاہتی ہیں۔
ملکی سیاسی تاریخ میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد حکومت کے خلاف کسی احتجاج یا تحریک میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں مگر یہ حکومت کے خاتمہ کا باعث نہیں بن سکے۔ البتہ حکومتیں عوامی اور سیاسی دبائو کے باعث دفاعی محاذ پر ضرور آجاتی ہیں ۔ ان حالات میں اپوزیشن جماعتوں کی حکمت عملی، پی ٹی آئی کو درپیش صورتحال اور خصوصاً حکومت کی جانب سے دبائو کو دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اہم ایشوز پر اتفاق رائے کر بھی لیا جائے تو بھی کسی بڑی تحریک کا امکان کم ہے کیونکہ عوام کے اندر ایسی کوئی تحریک موجود نہیں۔ بڑا سیاسی المیہ یہ ہے کہ مہنگائی زدہ، مسائل زدہ عوام اور سیاسی قیادت کے درمیان فاصلہ ہے۔ جب تک سیاسی جماعتیں اپنے احتجاج اور جدوجہد کو محض اپنے مفادات تک محدود رکھیں گی اور عوام کی آواز اور احتجاج کو سلگتے ایشوز سے منسلک نہیں کریں گی بڑی احتجاجی تحریک برپا کرنا مشکل ہو گا۔ بڑی احتجاجی تحریکیں جاندار لیڈر شپ اور عوامی تائید کے ذریعہ سے برپا ہوتی ہیں اور تحریک کے حوالے سے یکسوئی اور سنجیدگی نمایاں ہوتی ہے۔مگر فی الحال یہ نظر نہیں آ رہی۔پی ٹی آئی جے یو آئی کو ساتھ لے کر احتجاجی کیفیت طاری کر سکتی تھی اور کر سکتی ہے مگر مولانا فضل الرحمن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ مولانا کو اپنے سیاسی مفاد بڑے عزیز ہوتے ہیں۔ انہیں بڑا سیاسی کردار درکار ہوتا ہے اور دونوں جماعتوں کا بڑا المیہ یہی ہے کہ دونوں کا بڑا سیاسی کردار پختونخوا سے جڑا ہوا ہے۔ جے یو آئی کو خیبر پختونخوا سے پی ٹی آئی نے چلتا کیا۔ کیااب پی ٹی آئی جے یو آئی کو کچھ دینے کی اپوزیشن میں ہوگی اور کیا بانی پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمن کا بڑا سیاسی کردار قبول کر یں گے؟ فی الحال اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، لہٰذا عیدالفطر کے بعد کسی احتجاجی تحریک کے آثار نمایاں نہیں البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں مشترکہ نکات پر اتفاق کر لیں تو یہ بڑی پیش رفت ہوگی اور اپوزیشن کی سیاست چل سکے گی۔
صدر مملکت آصف علی زرداری کی لاہور آمد اور گورنر ہائوس میں ان کی گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر اور سابق گورنر مخدوم احمد محمود کی موجودگی میں پیپلزپارٹی کے اراکین ِ پنجاب اسمبلی سے ملاقات اور پنجاب حکومت کے حوالے سے شکایات کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ اراکین اسمبلی کو شکایات ہیں کہ انہیں حکومتی اتحادی کا سٹیٹس نہیں مل رہا اور ترقیاتی عمل خصوصاً انتظامی معاملات میں ان کی سفارشات کی پذیرائی نہیں ہوتی۔ پیپلزپارٹی کا پنجاب کی سطح پر یہ مسئلہ پہلے روز سے ہے۔ وہ پنجاب خصوصاً جنوبی پنجاب کے اضلاع میں، فیصلہ سازی میں اختیار چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے شکایات صرف پیپلزپارٹی کو نہیں خود مسلم لیگ (ن) کے اراکین اسمبلی کو بھی ہیں۔ اسی بنا پر ان کی بڑھتی شکایات پر پارٹی قائد نوازشریف کی اراکین اسمبلی سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہے، مگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے اراکین اسمبلی میں فرق یہ ہے کہ( ن) لیگ والے کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار نہیں کر رہے۔ ویسے پنجاب کے سیاسی محاذ پر دیکھا جائے تو یہاں مسلم لیگ (ن) کے پاس واضح اکثریت ہے لہٰذا وہ پیپلزپارٹی کے اراکین اسمبلی کا دبائو قبول کرنے کو تیار نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے اراکین اسمبلی کی شکایات پر واضح کیا کہ یہ درست ہے کہ ہمارے اور (ن) لیگ کے درمیان معاہدے پر عمل نہیں ہو رہا لیکن انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اتحادی حکومت کے ساتھ چلنا ان کی مجبوری ہے۔ البتہ انہوں نے اراکین اسمبلی کو آئندہ بجٹ تک صبر اور حوصلہ سے کام لینے کی ہدایت کی۔
اراکین اسمبلی خواہ ان کا تعلق حکومتی جماعت سے ہو یا اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں سے انہیں اپنے انتخابی حلقے بڑے عزیز ہوتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے حلقوں کے مسائل اور ان کے اضلاع میں انتظامی تقرریوں کے عمل میں ان کی سفارشات کو اہمیت حاصل ہو،لیکن پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز گورننس کو یقینی بنانے کیلئے بیورو کریسی کو جوابدہ بنانا چاہتی ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے سارا اختیار افسر شاہی کو دے رکھا ہے کہ حکومت کو مطلوبہ نتائج فراہم کریں۔ حکومت کو تو اس حوالے سے نتائج فراہم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں مگر اراکین اسمبلی محسوس کرتے ہیں کہ ان کا سیاسی کردار کم ہو رہا ہے، لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ اس حوالے سے حکمران جماعت اور اتحادی اراکین میں ردعمل موجود ہے۔ پنجاب کی سطح پر شکایات کے ازالہ کیلئے ایک کمیٹی پہلے سے کام کر رہی ہے اور ہر میٹنگ میں پیپلزپارٹی کے اراکین اسمبلی کو شکایات کے ازالہ کی یقین دہانی بھی کرائی جاتی ہے مگر پیپلزپارٹی کے اراکین مطمئن نظر نہیں آتے۔ ترقیاتی عمل میں تو ان کو حکومتی اراکین سمجھتے ہوئے ان کے حلقوں میں ترقیاتی عمل کیلئے اقدامات جاری ہیں مگر دیگر شکایات پر بھی غور ہونا چاہئے۔ البتہ یہ بھی سوچنا چاہیے کہ آخر کب تک ہماری سیاست کا محور اپنے حلقوں کے تھانیداروں کی تقرری بنا رہے گا۔ سیاست کو خدمت کا ذریعہ بنانا ہے تو حکومت کو اپنا کام کرنے دیا جائے اور اپنے حلقوں میں اپنی سیاسی مضبوطی کو یقینی بنانے کیلئے خدمت اور شہری و دیہی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ اس حوالے سے پیپلزپارٹی کو اپنے سابق گورنر احمد محمود کے طریقہ سیاست کو اپنانا ہوگا جس میں وہ اپنے حلقوں کو خدمت اور گورننس کے ذریعہ بناتے ہیں اور افسر کوئی بھی ہو وہ انہیں قبول کرتے ہوئے اپنے رنگ میں ڈھال لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے ضلع میں ان کی سیاسی حیثیت و اہمیت قائم رہتی ہے۔