صدرزرداری کا دورہ لاہور،پارٹی اراکین کے تحفظات

تحریر : سلمان غنی


قومی سیاست میں اپوزیشن اپنی سیاست اور کردار کے حوالے سے یکسو نہیں ہو پا رہی جس کی وجہ سے حکومت پر سیاسی دبائو بڑھتا نظر نہیں آ تا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اپوزیشن خصوصاً پی ٹی آئی کی حکمت عملی نے حکومت کو اس کے دبائو سے آزاد کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی، جس کی پہچان ہی اس کا مزاحمتی اور احتجاجی سیاست رہی ہے،اندرونی بحران سے دوچار ہے۔

احتجاجی عمل کو آگے چلانے کیلئے اسے دیگر جماعتوں کا سارا لینا پڑ رہا ہے ۔ اپوزیشن کی دیگر جماعتیں حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاجی تحریک پر تو آمادہ نظر آتی نہیں مگر وہ اس احتجاجی عمل کو حکومت تک محدود رکھنا چاہتی ہے۔اس حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کی مشترکہ حکمت عملی طے کرنے کیلئے اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کی کانفرنس کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ تحریک تحفظ آئین پاکستان کے پلیٹ فارم سے مذکورہ کانفرنس کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ اس میں اپوزیشن جماعتیں آئین پاکستان کے تحفظ، جمہوریت کے تسلسل اور نئے انتخابات کے انعقاد پر اتفاق کرنا چاہتی ہیں۔ 

ملکی سیاسی تاریخ میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد حکومت کے خلاف کسی احتجاج یا تحریک میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں مگر یہ حکومت کے خاتمہ کا باعث نہیں بن سکے۔ البتہ حکومتیں عوامی اور سیاسی دبائو کے باعث دفاعی محاذ پر ضرور آجاتی ہیں ۔ ان حالات میں اپوزیشن جماعتوں کی حکمت عملی، پی ٹی آئی کو درپیش صورتحال اور خصوصاً حکومت کی جانب سے دبائو کو دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اہم ایشوز پر اتفاق رائے کر بھی لیا جائے تو بھی کسی بڑی تحریک کا امکان کم ہے کیونکہ عوام کے اندر ایسی کوئی تحریک موجود نہیں۔ بڑا سیاسی المیہ یہ ہے کہ مہنگائی زدہ، مسائل زدہ عوام اور سیاسی قیادت کے درمیان فاصلہ ہے۔ جب تک سیاسی جماعتیں اپنے احتجاج اور جدوجہد کو محض اپنے مفادات تک محدود رکھیں گی اور عوام کی آواز اور احتجاج کو سلگتے ایشوز سے منسلک نہیں کریں گی بڑی احتجاجی تحریک برپا کرنا مشکل ہو گا۔ بڑی احتجاجی تحریکیں جاندار لیڈر شپ اور عوامی تائید کے ذریعہ سے برپا ہوتی ہیں اور تحریک کے حوالے سے یکسوئی اور سنجیدگی نمایاں ہوتی ہے۔مگر فی الحال یہ نظر نہیں آ رہی۔پی ٹی آئی جے یو آئی کو ساتھ لے کر احتجاجی کیفیت طاری کر سکتی تھی اور کر سکتی ہے مگر مولانا فضل الرحمن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ مولانا کو اپنے سیاسی مفاد بڑے عزیز ہوتے ہیں۔ انہیں بڑا سیاسی کردار درکار ہوتا ہے اور دونوں جماعتوں کا بڑا المیہ یہی ہے کہ دونوں کا بڑا سیاسی کردار پختونخوا سے جڑا ہوا ہے۔ جے یو آئی کو خیبر پختونخوا سے پی ٹی آئی نے چلتا کیا۔ کیااب پی ٹی آئی جے یو آئی کو کچھ دینے کی اپوزیشن میں ہوگی اور کیا بانی پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمن کا بڑا سیاسی کردار قبول کر یں گے؟ فی الحال اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، لہٰذا عیدالفطر کے بعد کسی احتجاجی تحریک کے آثار نمایاں نہیں البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں مشترکہ نکات پر اتفاق کر لیں تو یہ بڑی پیش رفت ہوگی اور اپوزیشن کی سیاست چل سکے گی۔

صدر مملکت آصف علی زرداری کی لاہور آمد اور گورنر ہائوس میں ان کی گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر اور سابق گورنر مخدوم احمد محمود کی موجودگی میں پیپلزپارٹی کے اراکین ِ پنجاب اسمبلی سے ملاقات اور پنجاب حکومت کے حوالے سے شکایات کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ اراکین اسمبلی کو شکایات ہیں کہ انہیں حکومتی اتحادی کا سٹیٹس نہیں مل رہا اور ترقیاتی عمل خصوصاً انتظامی معاملات میں ان کی سفارشات کی پذیرائی نہیں ہوتی۔ پیپلزپارٹی کا پنجاب کی سطح پر یہ مسئلہ پہلے روز سے ہے۔ وہ پنجاب خصوصاً جنوبی پنجاب کے اضلاع میں، فیصلہ سازی میں اختیار چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے شکایات صرف پیپلزپارٹی کو نہیں خود مسلم لیگ (ن) کے اراکین اسمبلی کو بھی ہیں۔ اسی بنا پر ان کی بڑھتی شکایات پر پارٹی قائد نوازشریف کی اراکین اسمبلی سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہے، مگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے اراکین اسمبلی میں فرق یہ ہے کہ( ن) لیگ والے کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار نہیں کر رہے۔ ویسے پنجاب کے سیاسی محاذ پر دیکھا جائے تو یہاں مسلم لیگ (ن) کے پاس واضح اکثریت ہے لہٰذا وہ پیپلزپارٹی کے اراکین اسمبلی کا دبائو قبول کرنے کو تیار نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے اراکین اسمبلی کی شکایات پر واضح کیا کہ یہ درست ہے کہ ہمارے اور (ن) لیگ کے درمیان معاہدے پر عمل نہیں ہو رہا لیکن انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اتحادی حکومت کے ساتھ چلنا ان کی مجبوری ہے۔ البتہ انہوں نے اراکین اسمبلی کو آئندہ بجٹ تک صبر اور حوصلہ سے کام لینے کی ہدایت کی۔

اراکین اسمبلی خواہ ان کا تعلق حکومتی جماعت سے ہو یا اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں سے انہیں اپنے انتخابی حلقے بڑے عزیز ہوتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے حلقوں کے مسائل اور ان کے اضلاع میں انتظامی تقرریوں کے عمل میں ان کی سفارشات کو اہمیت حاصل ہو،لیکن پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز گورننس کو یقینی بنانے کیلئے بیورو کریسی کو جوابدہ بنانا چاہتی ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے سارا اختیار افسر شاہی کو دے رکھا ہے کہ حکومت کو مطلوبہ نتائج فراہم کریں۔ حکومت کو تو اس حوالے سے نتائج فراہم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں مگر اراکین اسمبلی محسوس کرتے ہیں کہ ان کا سیاسی کردار کم ہو رہا ہے، لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ اس حوالے سے حکمران جماعت اور اتحادی اراکین میں ردعمل موجود ہے۔ پنجاب کی سطح پر شکایات کے ازالہ کیلئے ایک کمیٹی پہلے سے کام کر رہی ہے اور ہر میٹنگ میں پیپلزپارٹی کے اراکین اسمبلی کو شکایات کے ازالہ کی یقین دہانی بھی کرائی جاتی ہے مگر پیپلزپارٹی کے اراکین مطمئن نظر نہیں آتے۔ ترقیاتی عمل میں تو ان کو حکومتی اراکین سمجھتے ہوئے ان کے حلقوں میں ترقیاتی عمل کیلئے اقدامات جاری ہیں مگر دیگر شکایات پر بھی غور ہونا چاہئے۔ البتہ یہ بھی سوچنا چاہیے کہ آخر کب تک ہماری سیاست کا محور اپنے حلقوں کے تھانیداروں کی تقرری بنا رہے گا۔ سیاست کو خدمت کا ذریعہ بنانا ہے تو حکومت کو اپنا کام کرنے دیا جائے اور اپنے حلقوں میں اپنی سیاسی مضبوطی کو یقینی بنانے کیلئے خدمت اور شہری و دیہی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ اس حوالے سے پیپلزپارٹی کو اپنے سابق گورنر احمد محمود کے طریقہ سیاست کو اپنانا ہوگا جس میں وہ اپنے حلقوں کو خدمت اور گورننس کے ذریعہ بناتے ہیں اور افسر کوئی بھی ہو وہ انہیں قبول کرتے ہوئے اپنے رنگ میں ڈھال لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے ضلع میں ان کی سیاسی حیثیت و اہمیت قائم رہتی ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

عید الفطر:خوشیوں اور محبت بھرا اسلامی تہوار

دُنیا کی ہر قوم اپنا ایک تہوار رکھتی ہے۔ان تہواروں میں اپنی خوشی کے ساتھ ساتھ اپنے جدا گانہ تشخص کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی عید دیگر مذاہب و اقوام کے تہواروں سے بالکل مختلف حیثیت رکھتی ہے۔

عید کا روز اور معمولات نبویﷺ

اچھالباس پہنناعید کے روز اچھے کپڑے پہننے کے متعلق امام شافعیؒ اورامام بغویؒ نے امام جعفربن محمد سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ ہر عیدکے موقع پر دھاری دار یمنی کپڑے کا لباس زیب تن کیاکرتے تھے۔

نماز عید الفطر کا طریقہ اور احکام

عید الفطر تو رمضان المبارک کی عبادات کی انجام دہی کیلئے توفیق الٰہی کے عطا ہونے پر اظہار تشکر و مسرت کے طور پر منائی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ عبادات کے اختتام اور انجام پانے کی خوشی کوئی دنیوی خوشی نہیں ہے جس کا اظہار دنیاوی رسم و رواج کے مطابق کر لیا جاتا ہے۔

تیسویں پارے کاخلاصہ

سورۃ النباء:’’نبا،، خبر کو کہتے ہیں۔ سورت کے شروع میں فرمایا گیا ہے کہ لوگ ایک عظیم خبر کے متعلق، جس کے بارے میں یہ باہم اختلاف کر رہے ہیں، ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں، یعنی قیامت، اس کے وقوع اور حق ہونے کے بارے میں کچھ لوگوں کو اختلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: عنقریب قیامت برپا ہوگی تو انہیں معلوم ہو جائے گا۔

تیسویں پارے کاخلاصہ

تیسویں پارے میں چونکہ سورتوں کی تعداد زیادہ ہے اس لیے تمام سورتوں پر گفتگو نہیں ہو سکے گی بلکہ پارے کے بعض اہم مضامین کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی۔

انتیسویں پارے کاخلاصہ

سورۃ الملک : حدیث پاک میں سورۃ الملک کے بڑے فضائل بیان کیے گئے ہیں، اسے ’’المنجیہ‘‘ (نجات دینے والی) اور ’’الواقیاہ‘‘ (حفاظت کرنے والی) کہا گیاہے۔ اس سورۂ مبارکہ کی تلاوت عذاب قبر میں تخفیف اور نجات کا باعث ہے، اس کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے موت وحیات کی حکمت بیان فرمائی کہ اس کا مقصد بندوں کی آزمائش ہے کہ کون عمل کے میزان پر سب سے بہتر ثابت ہوتا ہے۔اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اوپر تلے سات آسمانوں کی تخلیق کو اپنی قدرت کی نشانی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کی تخلیق میں تمہیں کوئی عیب یا نقص نظر نہیں آئے گا، ایک بار پھر نظر پلٹ کر دیکھ لو، کیا اس میں تمہیں کوئی شگاف نظر آتا ہے، پھر بار بار نظر اٹھا کر دیکھ لو (اللہ کی تخلیق میں کوئی عیب یا جھول تلاش کرنے میں) تمہاری نظر تھک ہار کر ناکام پلٹ آئے گی۔